پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن PIA کا شمار کبھی دنیا کی بہترین ائیر لائینز میں ہوتا تھا اور اس کے پائلٹ انتہائی پیشہ ور صلاحیتوں کی بنیاد پر عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے یہاں تک کہ مغرب کے بعض ہوائی اڈوں پر پی-آئی-اے کے ماڈلز نمایاں طور پر رکھے ہوتے تھے لیکن رفتہ رفتہ بعض سیاسی اور انتظامی بدعنوانیوں کی بنیاد پر پی-آئی-اے میں زوال کا آغاز ہوا اور ایک وقت ایسا آیا کہ عمران خان کی حکومت نے ملک دشمن ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے ہوئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قومی ائیر لائین کا مکمل خاتمہ کردیا۔
جناب انصار عباسی نے اپنے ایک تجزیہ میں قومی ائرلائین کے خلاف معنی خیز سازش کے حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی اور احتساب کے اداروں کے لئے سوال چھوڑے ہیں اور باور کرایا ہے کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں وفاقی وزیر غلام سرور خان کے غیر ذمہ دارانہ بیان، جس میں پائلٹس کے جعلی لائسنس کا دعویٰ کیا گیا، نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) کو 200 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ اس بیان کے بعد برطانیہ، یورپ اور امریکا نے پی آئی اے پر پابندیاں لگا دیں، جس سے نہ صرف آمدنی متاثر ہوئی بلکہ پائلٹس کی نوکریاں بھی ضائع ہوئیں، انشورنس اور آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوا، اور پاکستان کی ایوی ایشن ریٹنگ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس بحران کی کوئی شفاف انکوائری نہ ہوئی اور نہ ہی کسی کو جوابدہ ٹھہرایا گیا۔ اب چار سال بعد برطانیہ نے پابندی اٹھالی ہے، جس سے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں بہتری کی امید ہے، مگر یہ سوال باقی ہے کہ اس نقصان کا اصل ذمہ دار کون تھا؟ اور قومی وقار کے ساتھ کس دشمن ملک کے اشارے پر کھلواڑ کیا گیا؟؟
عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت (اگست 2018 اپریل 2022) میں کوئی ایک ریاست دشمن اقدام نہیں کیا بلکہ بے شمار ایسے کام کئے جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ عمران حکومت مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، ایسے بڑے اقدامات جنہوں نے پاکستان کی معیشت، سلامتی اور بین الاقوامی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔
معاشی بدنظمی اور ریکارڈ قرضہ حاصل کرکے معیشت کے دیوالیہ کرنے کی راہیں ہموار کیں،قرض کے بے قابو پھیلاؤ کی صورت میں صرف 44 مہینوں میں وفاقی قرض میں کم ازکم 19.4 کھرب روپے کا اضافہ ہوا اور روپے کی 124؍$ سے 187؍$ تک پہنچ گئی۔مہنگائی کا تاریخی طوفان آیا اور میں افراطِ زر 12 برس کی بلند ترین سطح 14.6 فیصد پر پہنچا دیا۔
کورٹ روم نمبر 1 سے صادق و امین کی سند حاصل کرنے والے نے قومی امانت میں خیانت کی اور برطانیہ سے بھیجی جانے والی 190 ملیئن پاؤنڈ کی رقم القادر ٹرسٹ کے ذریعے غبن کر لی۔ کرپشن کے خلاف بیانیہ، لیکن شفافیت میں تنزلی دیکھی گئی۔کرپشن پر قابو پانے کے دعووں کے باوجود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے Corruption Perceptions Index میں پاکستان 2018 کے 117ویں نمبر سے 2021 میں 140ویں نمبر پر گر گیا۔2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد 145 ویں نمبر پر آ گیا۔ رپورٹس میں اشتہاری دباؤ، بلیک آؤٹ اور صحافیوں پر حملے نمایاں کیے گئے۔ سفارتی محاذ پر واضح ناکامیاں ہوئیں، وزیرِ خارجہ کے سخت بیان اور متبادل اسلامی بلاک کی تجویز پر ریاض برہم ہوا اور 1 ارب ڈالر قبل از وقت واپس مانگے گئے۔کشمیر Diplomacy کی شرمناک حد تک ناکامی سے قوم کے سر شرم سے جھک گئے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پاکستان عالمی برادری کو متحرک نہ کر سکا؛ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے خود تسلیم کیا کہ حمایت حاصل کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ اپریل 2022 میں عدمِ اعتماد سے بچنے کیلئے وزیرِاعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کیا، جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔ اسی دوران “سائفر” سازشی بیانیے نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوا۔ TTP سے خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں 2022 میں دہشت گرد حملوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا،ٹی ٹی پی کے خود اعلان کردہ حملے 84 فیصد بڑھ گئے۔اقتدار چھوڑنا پڑا تو معیشت کی مکمل تباہی کے لئے IMF سے خفیہ رابطے کرکے قرض رکوانے کی سرتوڑ کوششیں کیں لیکن ناکام رہے لیکن جاتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان کی معیشت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا ہے۔اور ہر طرف ناکام ہونے کے بعد اپنی عوامی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے فوج اور فوجی تنصیب پر حملے شروع کر دئیے۔