صحیفہ جبار خٹک نے پاکستانی ڈراموں کے غیر حقیقی کرداروں اور فضول دکھاوے پر پروڈکشن ہاؤسز کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔
اداکارہ و ماڈل صحیفہ جبار خٹک نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں بڑھتے ہوئے غیر حقیقی اور سطحی رجحانات پر شدید تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آخر ڈراموں میں ہر خاتون کو ہر وقت ساڑھی، بھاری میک اپ اور زیورات میں کیوں دکھایا جاتا ہے، جیسے یہ کوئی روزمرہ کی حقیقت ہو؟
صحیفہ نے انسٹاگرام پر ایک تفصیلی پوسٹ میں لکھا کہ اصل پاکستان میں عوام کی اکثریت مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے، جہاں نہ روزانہ بھاری کپڑے پہنے جاتے ہیں، نہ ہی سونے کے زیورات اور نہ ہی ہر وقت میک اپ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا واقعی عام گھروں کی عورتیں روز ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ ہر وقت میک اپ اور بھاری زیور؟ ڈراموں میں یہ سب دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ڈراموں میں ہر عورت کو مظلوم، ہر مرد کو ظالم اور ہر ساس کو ظالمانہ روپ میں کیوں پیش کیا جاتا ہے؟
اداکارہ نے کہا کہ ہر ڈرامہ ایک جیسی کہانی لیے کیوں آتا ہے؟ ہر عورت اپنی عزت بچاتی کیوں نظر آتی ہے؟ زبردستی کی شادی، ناپسندیدہ رشتہ اور شوہر کا ظلم کیا یہ محبت کی نشانیاں ہیں؟
صحیفہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ میں صرف 5 ڈراموں میں نظر آئی ہوں کیونکہ میں نے ہر کردار اور کہانی کو قبول نہیں کیا، مجھے کافی آفرز آتی تھیں، لیکن میں ہر اسکرپٹ کو نہیں مانتی تھی، اگر مجھے لگے کہ کہانی بے مقصد ہے، تو میں اسے رد کر دیتی تھی۔
اداکارہ نے ڈرامہ پروڈکشن میں موجود غیر سنجیدگی، معیار کی کمی اور صرف ریٹنگز کے پیچھے بھاگنے والے رویے پر بھی تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر اسکرپٹس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور جیسے تیسے بنا کر صرف بیچ دیا جاتا ہے ہم اپنی شناخت، سچائی اور مقصد کھو رہے ہیں، پروڈکشن ہاؤسز سوشل ایشوز کو نظرانداز کرتے ہیں اور ایسی کہانیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی جو معاشرے کو جھنجھوڑ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا ہم بلوچستان، زینب کیس، یا نور مقدم کی کہانیاں نہیں دکھا سکتے؟ داتا دربار پر نشئی بچے، یا قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز یہی وہ کہانیاں ہیں جو ہمیں جگا سکتی ہیں، نہ کہ بےمعنی فینٹیسی۔
اداکارہ نے اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ڈراموں کو حقیقت کے قریب لایا جائے اور ایسے اسٹائلسٹ و میک اپ آرٹسٹ لائے جائیں جو کردار کی سماجی حیثیت کے مطابق روپ دیں صرف شو شا کے لیے نہیں۔