• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپر آڈیٹر کا آڈٹ کون کرے گا؟ وزارت خزانہ اور اے جی پی آفس میں تنازع

انصار عباسی

اسلام آباد :…آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) اور وزارتِ خزانہ کے درمیان ایک آئینی کشمکش جنم لے چکی ہے، جس کی بنیاد یہ سوال ہے کہ ملک کے سپر آڈیٹر کا آڈٹ کون کرے گا؟ اس تنازع کی بنیاد اے جی پی کا اپنی آئینی خودمختاری پر اصرار جبکہ وزارت خزانہ کی یہ کوشش ہے کہ وہ آڈیٹر جنرل کے آرڈیننس میں شامل سیکشن 19 اے (جو فنانس ایکٹ 2015 کے ذریعے شامل کیا گیا) کو استعمال کرتے ہوئے اے جی پی کے منظور شدہ اخراجات کا بیرونی آڈٹ کرا سکے۔ اے جی پی نے اس عمل میں تعاون سے انکار کر دیا، جس کے بعد معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے جی پی کے حق میں فیصلہ دیا، تاہم وزارت خزانہ نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی۔ عدالت نے فنانس ایکٹ میں کی گئی اس ترمیم کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کر دیا اور واضح کیا کہ اے جی پی صرف صدر مملکت کو جوابدہ ہے، کسی انتظامی ادارے کو نہیں۔ جب اے جی پی آفس سے رابطہ کیا گیا تو ترجمان نے کہا کہ وزارت خزانہ ایک انتظامی ادارہ ہے، اور وہ کسی ایسے آئینی دفتر کا آڈٹ نہیں کر سکتا جو خود حکومت کا آڈٹ کرتا ہو۔ واضح کیا گیا کہ اے جی پی تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری محکموں، سرکاری کارپوریشنوں اور خودمختار اداروں کا آڈٹ کرتا ہے۔ تاہم، اے جی پی آفس کا موقف ہے کہ اے جی پی کا آڈٹ کوئی بھی انتظامی ادارہ نہیں کر سکتا کیونکہ اے جی پی صرف صدر پاکستان کو جوابدہ ہے۔ مزید وضاحت کی گئی کہ اے جی پی اپنے ذیلی دفاتر اور ہیڈ کوارٹرز کا اندرونی آڈٹ خود کرتا ہے۔ تاہم بیرونی تصدیق کیلئے پاکستان میں کسی ادارے کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ طریقہ یعنی ’’پِیئر ریویو‘‘ (Peer Review) اپناتا ہے، جس میں دیگر اعلیٰ آڈٹ ادارے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ گزشتہ سال سعودی عرب کے آڈٹ ادارے نے اُس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی ہدایت پر اے جی پی کا پیئر ریویو کیا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ یہ ریویو پیشہ ورانہ معیار کا جائزہ لیتا ہے، مالی لین دین کا نہیں۔ مزید بتایا گیا کہ یہ جائزے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ ترکی، ایران، آذربائیجان جیسے مساوی حیثیت کے حامل ممالک کے ادارے کرتے ہیں۔ دوسری جانب وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فنانس ایکٹ 2015ء کے ذریعے آڈیٹر جنرل کے آرڈیننس 2001ء میں شامل کردہ سیکشن 19 اے قانوناً اجازت دیتا ہے کہ آڈیٹر جنرل کے منظور شدہ اخراجات کا آڈٹ کیا جا سکے۔ اس سیکشن کے مطابق صدر مملکت ایک آزاد افسر مقرر کر سکتے ہیں جو آڈیٹر جنرل کی جانب سے دی گئی مالی منظوریوں کا آڈٹ کرے۔ آڈیٹر جنرل کو اس مقصد کیلئے تمام متعلقہ دستاویزات اور معلومات فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ اسی شق کے تحت صدر مملکت نے 2020ء میں وزارت خزانہ کے ایک ایڈیشنل سیکریٹری کو آڈیٹر جنرل کے اخراجات کے آڈٹ کیلئے مقرر کیا تھا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے بھی وزارت خزانہ کو ہدایت دی تھی کہ اے جی پی کا آڈٹ فوراً کرایا جائے۔ تاہم، آڈیٹر جنرل نے اُس افسر کو دستاویزات دینے سے انکار کر دیا اور کئی اعتراضات اٹھائے، جن میں شامل تھا کہ اے جی پی کا کبھی بیرونی آڈٹ نہیں ہوا، اے جی پی وفاقی حکومت کی تعریف میں نہیں آتا، اور اے جی پی کا آڈٹ صرف منظور شدہ اخراجات تک محدود ہوتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ نے اے جی پی کے اعتراضات کا مناسب جواب دیا، جس میں آئینی اور قانونی نکات کے ساتھ تاریخی پس منظر بھی شامل تھا۔ بعد ازاں اے جی پی کے دو افسران نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی، جس میں حکومت (یعنی وزارت خزانہ) کی جانب سے آڈٹ کرانے کے اختیار کو چیلنج کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 10؍ فروری 2025ء کو درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ سنایا۔ تاہم، وزارت خزانہ نے اس فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی، جو اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

اہم خبریں سے مزید