پشاور( ارشدعزیز ملک ) خیبرپختونخوا کی مقامی حکومتوں کے سال 2002 سے 2024 تک کے آڈٹ ریکارڈ میں 354 ارب 12 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد کی سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جو تاحال حل طلب ہیں۔ ان بے ضابطگیوں کے برقرار رہنے کی بڑی وجہ کوئی مؤثر، فعال اور مؤثر نظام کی عدم موجودگی ہے ، جو ان آڈٹ اعتراضات کو باضابطہ طور پر نمٹا سکے۔350ارب ریکورنہ ہوسکے،مالی سال 2013-14 میں 7 ارب 50 کروڑ 2015-16 میں 7 ارب 5 کروڑ 20کروڑ کی بےضا بطگیاں ،آڈٹ افسران نے کہا کہ حکومت نے احتساب کے نظام میں اصلاحات نہ کیں تو یہ آڈٹ اعتراضات اسی طرح بڑھتے رہیں گے ،محکمہ بلدیات نے کہا کہ ،کوئی آڈٹ رپورٹ نہیں ملی ،آڈیٹر جنرل کے دفتر کی جانب سے اب تک صرف 3 ارب 23 کروڑ 20 لاکھ روپے کی معمولی ریکوری کی جا سکی ہے۔ ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نہ تو تحصیل اکاؤنٹس کمیٹیوں کو فعال کر سکی اور نہ ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مقامی حکومتوں کے مالی معاملات پر اختیار دینے کے لیے کوئی سنجیدہ قانون سازی کی۔2019 کے ترمیمی ایکٹ میں واضح طور پر تحصیل اکاؤنٹس کمیٹی کے قیام اور اسے آڈٹ رپورٹس، بجٹ اور مالیاتی گوشواروں کی جانچ کے اختیارات دینے کا ذکر کیا گیا تھا، تاہم یہ کمیٹیاں آج تک قائم نہیں ہو سکیں۔