• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میاں محمد نواز شریف سے میری محبت کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب وہ جنرل ضیاء الحق کے ’’سایۂ رحمت‘‘ سے نکل آئے کیونکہ میں نے کالم نگاری کے آغاز سے لے کر اب تک کسی آمر کی حمایت نہیں کی، میں نے نہ صرف یہ کہ ان کے خلاف قلمی جہاد کیا بلکہ دورِ جوانی میں ان کے خلاف جلسے جلوسوں میں بھی شرکت کی، چنانچہ میرے وہ صحافی دوست جو اندر باہر کی خبریں نکالنے کے فن سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ میں اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدہ فہرست میں شامل ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں، میں نے جتنے کالم لکھے وہ کتابی صورت میں مارکیٹ میں موجود ہیں چونکہ جنرل صاحب نے ایک آئینی حکومت کا تختہ 12 اکتوبر کو اُلٹا تھا۔ اس لئے کتاب کا نام بھی ’’بارہ سنگھے‘‘ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جن جمہوری حکومتوں نے بعد میں فاشزم کا راستہ اختیار کیا، وہاں بھی میرا قلم نیام سے باہر نکل آیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں مسعود محمود نے مجھے یہ پیغام بھیجا کہ تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے، میں نے پیغام بر کو جو جواب ان تک پہنچانے کیلئے دیا، وہ میں یہاں درج نہیں کر سکوں گا کہ میرا کالم بیبیاں بھی پڑھتی ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ اس پیغام کے ٹھیک سترہ دن بعد بھٹو کی حکومت چلی گئی اور یہی مسعود محمود وعدہ معاف گواہ بن گیا اور ملعون عدلیہ بھٹو کو تختہ دار تک کھینچ لائی اور مسعود محمود امریکہ چلا گیا اور شاید اب بھی وہیں ہے ان باتوں کے باوجود پی پی پی کیلئے میرے دل میں بہت نرم گوشہ ہے کہ قربانیوں میں یہ سب سے آگے رہے ہیں۔نواز شریف صاحب سے میری محبت کو نصف صدی ہو چلی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں، سب سے بڑی وجہ یہ کہ وہ بہت بہادر انسان ہیں۔ دو پستول بردار جرنیل ان سے استعفیٰ لینے کیلئے گئے تھے، جس کا جواب نواز شریف نے یہ دیا تھا کہ آپ یہ استعفیٰ ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ ہی لے سکتے ہیں۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ ہر ادارے کو اپنے مخصوص دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے، کارگل کا ایڈونچر میاں صاحب کو بے خبر رکھ کر کیا گیا جسکے نتیجے میں امریکہ کی خفگی دور کرنے کیلئے امریکہ کا دورہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کو جب شہید کیا گیا، فطری طور پر کارکن سخت طیش کے عالم میں تھے، نواز شریف اس مشتعل مجمع میں پہنچ گئے اور بے نظیر کی شہادت کے سوگ میں شریک ہوئے۔ یہ بہت خطرناک فیصلہ لگا مگر نواز شریف خطرات سے ٹکرانے میں کبھی تامل سے کام لیتے نظر نہیں آتے۔نواز شریف کے ذہن میں پاکستان کی ترقی کا پورا روڈ میپ ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ کشمیر سے دستبرداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ملک کے مفاد میں ہے کہ دشمن کی دشمنی کو تجارتی تعلقات سے نارمل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں وزیراعظم ہندوستان واجپائی بس میں سوار ہو کر آئے اور مینارِ پاکستان پر کھڑے ہو کر اکھنڈ بھارت کی خواہش کو یہ کہہ کر خاک میں ملا دیا کہ ہم پاکستان کی خودمختاری اور اس کی سلامتی کے قائل ہیں۔ مجھے یاد ہے تھائی لینڈ میں اپنی سفارت کے دوران میں نے چین کے سفیر کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا، انہوں نے دورانِ گفتگو کہا کہ تائیوان پر ہمارا حق ہے اور ہم کبھی اس حق سے دستبردار نہیں ہونگے، لیکن تائیوان سے تجارت ہماری معاشی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ہر دور میں تجارت برقرار رکھی۔ ان کا مشورہ تھا پاکستان کو بھی اس اصول پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے تجارت ضرور کرنا چاہیے۔اس پہلو کے علاوہ بھی نواز شریف سمجھتے تھے کہ نہ صرف پاکستان کے تمام شہروں تک موٹر وے کا جال بچھانا چاہیے بلکہ قریبی ہمسایہ ملکوں تک یہ شاہراہ جانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف کہ اندرون ملک تجارتی آمد و رفت میں سہولت ہوگی، پٹرول، دوسرے اخراجات اور حادثات میں کمی واقع ہوگی بلکہ غیرملکی تجارتی قافلے پاکستان سے گزر کر افغانستان، ایران اور دوسرے ممالک کو جا سکیں گے اور یوں راہداری کی مد میں پاکستان ارب ہا ڈالر بھی کما سکے گا، مگر ہوا یوں کہ تین دفعہ انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے اصولوں پر کمپرومائز کرتا اور ساری عمر چین کی بانسری بجاتا۔ جب انڈیا نے ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے ساتھ ہی اس نے پاکستان کو حقیر سمجھ کر آئے روز ذلت آمیز دھمکیاں دینا شروع کیں تو پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکوں کا پروگرام بنایا۔ اس معاملے میں اختلاف کرنے والے بھی موجود تھے مگر اس کے حق میں سب سے بلند آہنگ آوازنواز شریف کی تھی۔ نواز شریف کو امریکہ نے انڈر ہینڈ ارب ہا ڈالر کی پیشکش کی اور یہ رقم پاکستان کو نہیں نواز شریف کو بطور رشوت پیش کی جا رہی تھی۔ مگر نواز شریف نے یہ آفر حقارت سے ٹھکرا دی اور پانچ کی جگہ چھ دھماکے کرائے۔ میں ان دنوں تھائی لینڈ میں تھا۔ وزارتِ خارجہ کی طرف سے سفیروں کی دی گئی ایک روٹین کی دعوت میں مسلم ممالک کے سفیر میرے پاس آتےاور مبارک باد دیتے مگر اتنی آہستگی سے کہ کسی دوسرے کو ’’کانوں کان‘‘ خبر نہ ہو۔ ایٹمی دھماکوں سے پہلے وزارتِ خارجہ کی سیکرٹری نے مجھے یاد کیا اور کہا کہ آپ پاکستان تک ہماری یہ درخواست پہنچا دیں کہ وہ جوابی دھماکے نہ کرے۔ میں نے کہا جی میں یہ پیغام اپنی حکومت تک پہنچا دوں گا۔ لیکن اگر ہندوستان نے اپنی طاقت کے زعم میں پاکستان پر حملہ کر دیا تو کیا آپ ہماری مدد کریں گے۔ جواب ملا ’’نہیں‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا اور بتا بھی دیا کہ تم ہمیں غیرمسلح کر کے مروائو گے۔میاں نواز شریف کی جتنی کردار کشی کی گئی شاید اس کی دوسری کوئی مثال نہ ملے۔ خصوصاً تحریک انصاف کے امام اور ان کے مقتدی ’’لونڈوں لپاڑوں‘‘ نے گندے اور بے ہودہ الزامات کی انتہا کر دی۔ انہوں نے سوشل میڈیا کو ذریعہ اظہار بنایا اور وہ سب الزامات کی ٹیپ یہاں سے چلاتے رہے، جو الف سے ی تک جھوٹے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اپنی اس شرافت کا مظاہرہ کرتی رہی۔ جسے عوام الناس اور خواص بھی شرافت نہیں ایک بہت برا سا نام دیتے ہیں، یہ جماعت فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر آئی اور اب بہت غصے میں ہے کہ اسے کاندھوں سے کیوں اُتارا گیا۔ ان دنوں بھرپور کوشش ہو رہی ہے کہ انہیں دوبارہ گود میں لے کر فیڈر ان کے منہ میں دے دیا جائے لیکن ان کی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس حوالے سے سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ کرپشن کے جو بے ہودہ الزامات نواز شریف پر لگائے گئے تھے، نہ صرف عدالتوں نے ان الزامات کو رد کر دیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی اور چوہدری نثار نے جماعت سے الگ ہونے کے باوجود یہ گواہی دی کہ نواز شریف سے سیاسی اختلاف تو ہو سکتا ہے، مگر ان پر کرپشن کا الزام کوئی بددیانت ہی لگا سکتا ہے۔میں نے فی الحال میاں نواز شریف کی شخصیت کے چند پہلوئوں کا ذکر کیا ہے کہ سیاسی باتیں اور سیاست پر بہت بہتر طریقے سے بات کرنیوالے موجود ہیں اور وہ اس بدترین ماحول میں بھی اپنا فرض ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں بطور انسان انہیں بہت اُونچے مقام پر دیکھتا ہوں۔ چنانچہ اسکا تفصیلی ذکر ان شاء اللہ کل کروں گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین