1953 ء کا برس تھا ۔ اگست کے مہینے میں جمعے کی ایک رات نیویارک کے ریڈیو سٹی میوزک ہال میں شہر کے نامور لوگوں کا ایک اجتماع تھا۔ فلمی دنیا کے جانے پہچانے چہرے، میک اپ کی بھاری تہوں میں لپٹی خواتین ، دولت کے زور پر سیاسی اور سماجی رتبہ پانیوالے کھوکھلے مرد اور ناقابل فہم اصطلاحات میں نصابی گفتگو کرنے والے اساتذہ ۔ یہ لوگ جارج سٹیونز کی ہدایت کاری میں بننے والی امریکن ویسٹرن فلم Shane کا افتتاحی شو دیکھنے جمع ہوئے تھے۔ ہتھیار ، تشدد اور نیکی اور بدی کے سادہ تصورات پر مبنی یہ فلم امریکی سی آئی اے کی خفیہ مدد سے تیار کی گئی تھی۔ یہ وہ برس تھا جب امریکی صدر آئزن ہاور نے امریکی خارجہ پالیسی کے عالمی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جان فوسٹر ڈلس کو وزیر خارجہ اور اس کے بھائی ایلن فاسٹر ڈلس کو سی آئی اے کا ڈائریکٹر مقرر کیا تھا۔ مفروضہ ثقافت ،اقتدار کی آلہ کار دانش اور درپردہ متشدد کارروائیوں کے ذریعے سرد جنگ کو آگے بڑھانے کا ایک نیا باب شروع ہو رہا تھا۔ میکارتھی ازم اس منصوبے کا سیاسی چہرہ تھا۔ جمہوریت اور آزادی جیسے نعروں کی آڑ میں خفیہ جنگ کی بساط بچھائی جا رہی تھی جو لاطینی امریکا سے افریقہ اور مغربی یورپ سے جنوبی ایشیا اور مشرق بعید تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسکی تفصیل جاننا ہو تو Stephen Kinzer کی کتاب The Brothers_ John Foster Dulles, Allen Dulles, and Their Secret World War دیکھئے ۔ ایران میں ڈاکٹر مصدق کو معزول کر کے شاہ ایران کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے سی آئی اے کے Operation Ajaxسے ہم سب واقف ہیں۔ ان کارروائیوں کا تفصیلی بیان سوئس مؤرخ Daniele Ganserنے 2005 میں آپریشن گلیڈیو کو بے نقاب کرکے کیا۔ سوئس مؤرخ کا بنیادی نکتہ یہ تھاکہ امریکی سی آئی اے اور برطانوی MI-6نے یورپ کے کم و بیش پندرہ ممالک میں قدامت پسند دائیں بازو کے عناصر ، دہشت گرد اور سابق نازی کارندوں کی مددسے خفیہ جنگی جتھے تیار کیے ۔ Daniele Ganserنے اپنی تحریر میں ان کارروائیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سعودی عرب ، پاکستان اور ایران کا نام بھی لیا۔ ان کارروائیوں کا عوامی چہرہ وہ دانشور تھے جو خفیہ طور پر ریاستی اداروں کے آلہ کار تھے اور یہ قصہ بیس کی دہائی ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ اس میں ارنسٹ ہیمنگوے جیسے نام بھی لیے جاتے ہیں۔ سرد جنگ میں اہل دانش کی مدد سے ریاستی بیانیے کو آگے بڑھانے میں امریکا واحد کردار نہیں تھا۔ سیاسی لکیر کے دوسری طرف اشتراکی حکومتیں بھی امن اورمعاشی انصاف کے نام پر اسپین کی خانہ جنگی کے برسوں سے اسی دھندے میں مشغول تھیں۔ یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں Willi Munzenberg ان سرگرمیوں کا سربراہ تھا۔ تفصیل کیلئے STEPHEN KOCH کی کتاب Double Lives: Stalin, Willi Munzenberg and the Seduction of the Intellectuals دیکھنا مفید ہو گا۔ دانش محض علمی استعداد اور فنکارانہ مہارت سے عبارت نہیں۔ یہ طے ہے کہ ہر ملک میں دانش کے دو دھارے ہوتے ہیں۔ دانشوروں کا ایک طبقہ اپنے ریاستی بیانیے کا درپردہ کارندہ ہوتا ہے اور جو دانشور اپنی ریاست پر تنقید کرے اسے ریاستی طاقت کے ذریعے منظر سے غائب کر دیاجاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ریاست کے ناقد دانشور کو Gabriel Lorca، سید قطب اور فروغ فرخ زاد کی طرح قتل ہی کیا جائے ۔منحرف دانشور کو علی شریعتی ، اقبال احمد ، خالد احمد ،ارون دھتی رائے ، حمزہ علوی اور کے کے عزیز کی طرح اجتماعی منظر کے حاشیے پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ریاست کے آلہ کار دانشور کو ایک بڑی سہولت یہ ہوتی ہے کہ کم و بیش ہر ملک میں رائے عامہ کا بڑا حصہ روایت ، مفاد اور ہجوم کی نفسیات کے زیر اثر اسی دانشور کو وقیع سمجھتا ہے جو معاشرے میں پہلے سے موجود تعصبات ، ریاستی جھوٹ اور ’زمینی حقیقتوں‘کے زیر اثر اختلاف یا انحراف کی بجائے طاقتور بیانیے کی تائید ہی میں عافیت محسوس کرتا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں عورتوں، مذہبی اقلیتوں اورچھوٹی اکائیوں کے خلاف بہیمانہ تشدد کے پے در پے واقعات پیش آئے ہیں۔ ریاست کے آلہ کار دانشور ثقافت اور روایت کی آڑ میں ان واقعات کی توجیہ کر رہے ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ ثقافت کوئی مستقل بندوبست نہیں ۔ علمی ارتقا ، معاشی تبدیلیوں اور سیاسی حرکیات کی بنیاد پر ثقافت مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ روایت کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اسے مفروضہ طور پر قدامت بخشی جاتی ہے ۔ وادی سندھ کی تہذیب قریب 3300 برس پرانی ہے۔ معلوم انسانی تاریخ تو لاکھوں برس پر محیط ہے ۔ روایت کی حرکیات کو سمجھنے کیلئے Eric Hobsbawm کی کتاب The Invention of traditionدیکھئے۔ روایت کو مذہبی تقدیس دینے کا عمل سمجھنے کیلئے Bernard Lightman اور Sarah Qidwai کی کتاب Evolutionary Theories and Religious Traditionsسے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ روایت بہرصورت ایک غیر مرتب بندوبست ہے جو قومی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد فرد کا صوابدیدی اختیار ہے۔ 1688ء میں برطانوی انقلاب سے 1914ء کی عالمی جنگ کے درمیانی عرصے کو قومی ریاست کی نمودکا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ قومی ریاست میں شہری براہ راست ایک عمرانی معاہدے کے ذریعے ریاست سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی فرد یا گروہ کو کسی دوسرے فرد یا گروہ پر قانون کی قوت نافذہ حاصل نہیں ۔ بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں بانو بی بی اور اسکے ساتھی کو قتل کرنیوالے موٹر گاڑیوں پر سوار ہو کر جائے وقوعہ تک پہنچے اور بندوقوں سے واردات کا ارتکاب کیا۔ سوال کیا جانا چاہیے کہ بندوق اور گاڑی کس روایت کا حصہ ہے اور یہ آلات کس نے ایجاد کیے۔ قدامت پسندی کا المیہ یہ ہے کہ وہ سائنسی علم سے خوف کھاتی ہے لیکن سائنسی علوم کی ذیلی پیداوار، ایجادات کو فوراً اپنا لیتی ہے۔ سائنسی علم سے پیوستہ مفادات مجروح ہوتے ہیں اور جدید ایجادات سے اپنے مفادات کو تقویت پہنچائی جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے1993ءمیں اپنے Reith Lectures میں یہی کہا تھا کہ حقیقی دانشور کا منصب ریاستی بیانیے یا اکثریتی رائے کو سہارا دینا نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق روایت ، ثقافت اور اقدار کو ازسرنو مرتب کرنا ہے۔