پشاور( ارشدعزیز ملک )ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔جنگلات ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں جو بارش کے پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز روکتے ہیں۔ یہ زیر زمین پانی ری چارج کرتے، زرعی اراضی کو کٹاؤ سے بچاتے اور درجہ حرارت کم کرتے ہیں۔ جنگلات کا رقبہ1992 میں 3.78 سے کم ہو کر2025میں 3.09 ملین ہیکٹر ہو چکا، 11ہزار ہیکٹر سالانہ کٹائی کی جاری ہے۔ ارندو گول میں 16 لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی گئی جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس ہے۔کالام سوات میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر درخت کاٹنے سے دریائے سوات کے کیچمنٹ ایریا کو شدید نقصان پہنچا ہے، بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز ’’سیلابی فیکٹریوں‘‘ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پورا ملک ایک نہایت سنگین ماحولیاتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے خطرات براہِ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ 1992 سے اب تک جنگلات کا رقبہ 18 فیصد کم ہو چکا ہے جبکہ چراگاہیں صرف 20 سے 30 فیصد تک اپنی ممکنہ بایو ماس پیدا کر رہی ہیںجس میں خیبرپختونخوا کا حصہ زیادہ ہے ۔ 1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب ثابت کرتے ہیں کہ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو ’’سیلابی فیکٹریوں‘‘ میں بدل دیا ہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے جنگلات محض درخت نہیں بلکہ ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں یہ بارش کے پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز روکتے ہیں زیر زمین پانی ری چارج کرتے ہیں زرعی زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں اور معیشت کے لیے پانی اور مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں جنگلات آب و ہوا کا توازن قائم رکھتے ہیں درجہ حرارت کم کرتے ہیں اور کاربن ذخیرہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہیں دیہی آبادی کے لیے چارہ ایندھن پھل دوائیں اور سیاحت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرتے ہیں یہ ملک کو سیلاب لینڈ سلائیڈ اور قحط جیسے خطرات سے بھی بچاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ اگر فوری طور پر بحالی اور مضبوط اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بڑے ماحولیاتی اور معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ مؤثر پالیسی اور عملدرآمد ملک کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے،پاکستان میں جنگلات کا رقبہ1992 میں 3.78ملین ہیکٹر سے کم ہو کر2025میں 3.09 ملین ہیکٹر ہو چکا ہے یعنی جنگلات کے رقبہ میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ سالانہ جنگلات کی کٹائی 1992 میں ریکارڈ تقریباً 40ہزار ہیکٹر تھی لیکن حکومت کی مداخلت اورپابندیوں کے باعث کم ہوکر 2025 میں 11ہزار ہیکٹر سالانہ ہوگئی ہے لیکن صورت حال اب بھی تشویشناک ہے عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں سالانہ اب بھی 11ہزار ہیکٹر کی کٹائی جاری ہے ۔ چراگاہوں کا رقبہ 60 سے کم ہو کر 58 فیصد ہوگیا ہے چراگاہوں کی بایو ماس پیداوار: 100 ممکنہ پیداوار سے کم ہو کر 20فیصد رہ گئی ہے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق چترال میں 1992 سے 2009 کے درمیان 3700 ہیکٹر سے زائد جنگلات ختم ہو گئے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ 2030 تک مزید 23فیصد کمی متوقع ہے۔ ارندو گول میں لکڑی کی چوری کے دوران 16 لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی گئی جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس ہے۔ کالام سوات میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر لکڑی کاٹنے سے دریائے سوات کے کیچمنٹ ایریا کو شدید نقصان پہنچا، جس نے 1992 اور 2010 کے سیلابوں کو مزید تباہ کن بنا دیا۔ جنگلات کی کٹائی اب بھی ڈھلوانوں کو کمزور اور اچانک آنے والے سیلاب کے خطرات کو بڑھا رہی ہے۔ یہ تباہی صرف چند اضلاع تک محدود نہیں۔ بونیر میں اگست 2025 کے کلاؤڈ برسٹ نے اچانک آنے والے سیلاب کو جنم دیا جس نے گھروں، کھیتوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ جنگلات سے محروم پہاڑ بارش کے پانی کو روک نہ سکے۔ بٹگرام میں نازک اراضی ڈھانچے اور جنگلات کی کٹائی نے لینڈ سلائیڈز کو جنم دیا جنہوں نے قراقرم ہائی وے بند کر دی اور شمالی پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ باجوڑ میں 2025 کے ایک مہلک کلاؤڈ برسٹ سیلاب نے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ سڑکیں اور پل بہا دیے۔ مانسہرہ میں بار بار کلاؤڈ برسٹ سے اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈز آئے، جبکہ گلگت بلتستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے جس سے یہ خطہ جنگلاتی آگ اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات کے لیے نہایت حساس ہو گیا ہے۔ڈاکٹر عادل ظریف، کنوینر، سرحد کنزرویشن نیٹ کا کہنا ہے کہ جنگلات بارش کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں، زیرِ زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں اور ڈھلوانوں کو مستحکم بناتے ہیں۔ جب یہ ختم ہو جائیں تو ننگی پہاڑیاں جنگلوں سے ڈھکے علاقوں کے مقابلے میں 5 سے 8 ڈگری زیادہ گرم ہو جاتی ہیں، جس سے مون سون کی ہوائیں تیزی سے بلند ہو کر اچانک کلاؤڈ برسٹ پیدا کرتی ہیں بجائے اس کے کہ مسلسل بارش ہو۔ جڑوں کے بغیر مٹی کو سہارا نہیں ملتا اور لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے عام ہو جاتے ہیں، جبکہ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تباہی براہِ راست انسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تقریباً ایک تہائی گھرانے مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں لیکن چراگاہوں کی پیداواریت بے جا چرائی اور بدانتظامی کے باعث صرف 20 سے 30 فیصد رہ گئی ہے۔ جو خاندان پہلے جنگلات سے چارہ اور ایندھن حاصل کرتے تھے وہ اب مزید غیر پائیدار طریقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف شجرکاری مہمات اس بحران کو حل نہیں کر سکتیں جب تک لکڑی کی مافیا کے خلاف سخت کارروائی اور ملوث اہلکاروں کا احتساب نہ کیا جائے۔