وہ، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات بھی رکھتے تھے اور اس کا کئی بار عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اس وقت کے صحافیوں کو ان کا وہ تاریخی مکالمہ آج بھی یاد ہے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق نے احتجاج کرنے والے صحافیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا، ’’ میرا بس چلے تو انہیں الٹا لٹکا کر پھانسی دے دوں۔‘‘ نثار عثمانی کھڑے ہوئے اور پھر بولے، ’’ بس یہی اک کام اللہ نے انسان کے حوالے نہیں کیا‘‘ کل 4ستمبر1994 کو اس بے باک اور جرات مند صحافی کی 31ویں برسی ہے اور مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب یہ خبر آئی ، یقین جانیں ایسا لگاکہ جیسے جدوجہد نے ہی دم توڑ دیا ہو۔
صحافیوں کی اس تاریخی جدوجہد نے ہماری سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کیلئے عملی مثالیں چھوڑی ہیں ۔انہوں نےفوجی عدالتوں کا سامنا کیا، مکالمہ بھی کیا سزا کے طور پر قید بامشقت بھی ہوئی، کوڑے بھی لگے مگر طے تھا کہ نہ معافی مانگنی ہے اور نہ ہی ضمانت کروانی ہے۔ زیادہ تر کھانا جیل کا ہی کھایا جاتا تھا۔ جیل کاٹنے کا بھی اپنا اپنا انداز تھا۔ کچھ گرفتار صحافی دوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ مل کر ’ انقلابی ترانے‘ گاتے تو کچھ جیل سے خطوط لکھتے جو کبھی کبھار امن اخبار یا الفتح رسالے میں چھپ جاتے۔ لیڈرز مثالیں قائم کرتے جن میں نمایاں نام منہاج برنا اور نثارعثمانی کاتھا۔ برنا صاحب نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی تو سارے ساتھی پریشان تھے وہ کچھ کھانے پینے کو تیار نہ تھے کئی دن یہ ہڑتال جاری رہی،نثار عثمانی صاحب جب گرفتاری دینے گھر سے نکلے تو اہلیہ کی بینائی خاصی کمزور ہوچکی تھی ۔جب عثمانی صاحب رہا ہوکر واپس گھر پہنچے تو وہ ان کو انکی آواز سے پہچانیں۔ بقول ان کے ایک ساتھی جناب علی احمد خان، جوان دنوں امن اخبار میں کام کرتے تھے بعد میں کئی سال بی بی سی میں رہے۔’’ میں عثمانی صاحب کے ساتھ کیمپ جیل اور کوٹ لکھپت میں رہا ہوں ہم تو خیر مشقت میں کبھی کبھار گولی دے جاتے تھے مگر میں نے عثمانی صاحب کو بیرک میں ہر وقت اون ’’بنتے‘‘ ہوئے دیکھا ۔ شام کو جب جیلر آتا تو انہوں نے اپنا کام مکمل کیا ہوتا ہم لوگ کچھ نہ کچھ چھوڑ دیتے اور بہانہ کرتے ، عثمانی صاحب کے غصے کا بھی سامنا کرنا پڑتا‘‘۔
وہ نہ کمیونسٹ تھے نہ ہی ان کا بائیں بازو سے تعلق تھا مگر وہ عملی جدوجہد کے ساتھ صحافت کی حرمت کابھی خیال کرتے۔ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے کہ ایک اچھے ٹریڈ یونینسٹ کیلئے ایک اچھا صحافی ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ پی ایف یوجے ایک پروفیشنل ٹریڈ یونین باڈی ہے۔ میری عثمانی صاحب سے آخری ملاقات انکے انتقال سے چند ماہ پہلے اسلام آباد میں پی ایف یو جے کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے دوران ہوئی۔ اسی دوران سابق صدر فاروق لغاری نے ذاتی طور پر عثمانی صاحب کو فون کرکے ملنے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ حکومتPFUJکے ویج بورڈ کی تشکیل پر سخت تحفظات سے پریشان تھی۔ ملاقات کا دورانیہ20منٹ تھا مگر چونکہ لغاری صاحب انکو بہت پہلے سے جانتے تھے ملاقات50منٹ تک جاری رہی۔ وہ تنظیمی معاملے میں بہت سخت تھے ایک بار ان کے اور برنا صاحب کے درمیان کسی بات پر بحث ہوئی تو انہوں نے برنا صاحب سے کہا دوسرے لوگوں کو بھی بات کرنی ہے۔ برنا صاحب نے اس پر توجہ نہیں دی توعثمانی صاحب نے کہا ، آپ ہال سےباہر جاسکتے ہیں ، اب چونکہ خود برنا صاحب بھی بہت ڈسپلنڈ آدمی تھے تو انہوں نے اس بات کا برا نہیں مانا۔
میں1978کی تحریک کے وقت جامعہ کراچی میں تھا مگر عملی صحافت اور کے یوجے اور پی ایف یوجے کا ممبر بننے کے بعد عثمانی صاحب، برنا صاحب، احفاظ الرحمان اور قدوس شیخ صاحب جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ صحافیوں کی پانچ بڑی تحریکیں رہی ہیں۔ پہلی1946میں جب پی ایف یو جے قیام کے مرحلے میں تھی سندھ آبزور کی ہڑتال سے شروع ہوئی سندھ یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے پھر ایوب خان کیخلاف، پھر1970کی ملک گیر ہڑتال جسکے دوران16روز تک کوئی اخبار شائع نہ ہوا ، بھٹو صاحب نے دائیں بازو کے اخبار جسارت اور دیگر کے خلاف کارروائی کی توپہلی آواز پی ایف یوجے کی بلند ہوئی اور ہڑتال ہوئی۔ سب سے کٹھن تحریک جنرل ضیاء الحق کیخلاف شروع ہوئی جو کوئی چارماہ تک جاری رہی جس میں چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا ہوئی اور تین کو کوٹ لکھپت میں لگے بھی۔
نثار عثمانی ایک مثالی کردار تھے اور اکثر مولانا حسرت موہانی کی مثالیں دیا کرتے تھے خاص طور پر جدوجہد کے حوالے سے۔ مولانا کو ایک بار خبر کے ذرائع نہ بتانے پر نہ صرف چار سال سزا ہوئی بلکہ فرنگی حکومت نے انکا سیل نیلام کردیا اور جو رقم ملی وہ جرمانے میں شمار کرلی گئی۔ مولانا کا ذکر اکثر ہمارے ماموں ایس ایم مہدی جو دہلی میں تھے بھی کیا کرتے ۔ انہوں نے تو مولانا کے ساتھ وقت بھی گزارا۔ اب چونکہ ان کاتعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا تو وہ بتاتے ہیں کہ حسرت موہانی نے کس طرح تحریک کے دوران کئی کمیونسٹوں کو اپنے مدرسے میں پناہ دی ۔ ایک بار انہوں نے ان سے کہا۔’’ مولانا آپ پارٹی میں کیوں نہیں آجاتے انہوں نے کہا کچھ لوگوں کو یہاں بھی رہنے دیں‘‘۔ نثار عثمانی صاحب کو مولانا کی اصول پسندی اور اپنی بات پر قائم رہنا،چاہے اس کیلئے کوئی بھی قربانی دیناپڑجائے،پسند تھا۔
آج صحافت اور سیاست دونوں ہی زوال پذیر ہیں جبکہ آج کے چیلنجزماضی کے مقابلے میں بہت مختلف اور سخت ہیں بدقسمتی سے انکا مقابلہ کرنے کیلئے جو پود آج موجود ہے انکی تربیت طلبہ یونین کی سیاست ، ٹریڈ یونین یا سیاسی اسٹڈی سرکلز میںنہیں ہوئی۔ قصور ان کا بھی نہیں۔ ایک طرف ہائبرڈ سیاست یا نظام ہے جسکی بدقسمتی سے حمایت اور دفاع وہ بھی کررہےہیں جو اس نظام کے ڈسے ہوئے ہیں مگر وہ بھول گئے ہیں کہ آج جو انکے مخالفین کے ساتھ ہورہا ہے کل پھر ان کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ حال صحافت کا اس بدترین نامعلوم سنسرشپ میں ہے۔قانون تو چھوڑیں جو ماورائے قانون ہورہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ آج پی ایف یو جے کو جس اتحاد کی ضرورت ہے ہم اس سے خاصے دور ہیں۔ تمام تر مشکلات اور عثمانی صاحب کے انتقال کے بعدبھی ہم نے کسی حد تک اس مشن کو جاری رکھا جب جنرل پرویز مشرف نے میڈیا پر پابندی لگائی تو ہم نے88روز کی تحریک چلائی۔ تنظیم پر تنقید بھی ہوتی ہے خاص طور پر پرانے ساتھیوں کی طرف سے مگر کوئی خود آگے آنے کو تیار نہیں بس فیس بک اور ڈیجیٹل میڈیا تک محدود رہاجاتا ہے۔
پی ایف یو جے کے قیام کو 75 سال ہوگئے ان سات دہائیوں میں جو کچھ ہوا وہ اب کتابی شکل میں موجود ہے۔ کل عثمانی صاحب کی برسی ہے کیا ہی اچھا ہوتا ہم یہ برس اپنے اپنے نہیں بلکہ ایک پلیٹ فارم پر مناتے۔ ان بزرگوں کے آڑ ےکبھی کوئی عہدہ نہیں آیا صرف نظریہ سامنے تھا آزادی صحافت کا۔ آئیےاتحاد کی کوششوں کا آغاز کریں تاکہ آئندہ سال ہم یک زبان ہوکر اس بدترین دور سے نکل سکیں۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت نرالی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا