• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں تفتیشی افسران کی شدید کمی

کراچی (اسد ابن حسن) نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کی انتظامیہ بے انتہا اختیارات کے حصول میں تو کامیاب ہو گئی ہے اور اینٹی منی لانڈرنگ کی تحقیقات سمیت 10تفتیشی محکمے قائم کر دیے ہیں اور ایک مزید قائم ہونے جا رہا ہے مگر تفتیشی افسران کی شدید کمی آج بھی ہے اور فنڈز کی بھی بے انتہا قلت ہے۔ ان دونوں موضوع پر ادارے کے ایک انتہائی اعلی افسر نے انکشاف کیا کہ ادارے کی تشکیل کے وقت کشیر بجٹ (پہلے دو ارب اور بعد میں چار ارب روپے) کی زبانی یقین دہانی تو کروائی گئی تھی مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اب تک ادارے کو ایک ارب 25کروڑ 50لاکھ روپے کی منظوری دی گئی جس میں سے 29کروڑ چار لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں یعنی صرف 25 فیصد اور وہ رقم بھی زیادہ تر تنخواہوں کی ادائیگی میں خرچ ہو گئی۔ چار پانچ ماہ میں 128کے قریب نئی بھرتیاں شروع ہو جائیں گی جس میں سے 100تفتیشی افسران ہوں گے۔ کراچی کو مزید 15تفتیشی افسران دے دیے جائیں گے۔ گزشتہ روز ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے کہ تمام سرکلز کے دو منتخب تفتیشی افسران کو ہیڈ کوارٹر میں اینٹی منی لانڈرنگ کی تفتیش کی ٹریننگ دی جائے گی۔ سوال اب بھی یہی موجود ہے کہ تفتیشی افسران کی تعداد تو وہی ہے۔ بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور ملتان میں ایک ایک تفتیشی افسر کے پاس 400 سے 500 انکوائریاں زیر التوا ہیں، مقدمات کی تفتیش الگ ہے۔ ادارے کے پاس اب فائننشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کی ایس ٹی آر یعنی سسپیشن ٹرانزیکشن رپورٹس بھی آنا شروع ہو جائیں گی اور اس کے بعد مزید تفتیشی افسران پر بوجھ پڑنا شروع ہو جائے گا۔ کراچی میں تفتیشی افسران کی تعداد 16، زیر التوا انکوائریوں کی تعداد 5596 اور 80 مقدمات کی سنوائی اور افسران کی پیشیاں جاری ہیں۔ حیدرآباد میں تفتیشی افسران کی تعداد 4 زیر التوا انکوائریوں کی تعداد 729 اور 29 مقدمات جاری ہیں۔ سکھر میں تفتیشی افسران کی تعداد چھ ہے، زیر التوا انکوائریوں کی تعداد 500اور جاری مقدمات کی تعداد 60 ہے۔
اہم خبریں سے مزید