اسلام آباد (مہتاب حیدر)قائمہ کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرپٹو کرنسی حوالہ ،ہنڈی، اغوا برائے تاوان اور دہشتگردی میں استعمال ہورہی ہے،وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق پاکستان ورچوئل اثاثہ جات میں سرمایہ کاری کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے، مگر قانون نہ ہونے کے باعث یہ شعبہ "گرے ایریا" میں ہے۔ایس بی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایا کہ دو آپشن زیر غور ہیں: کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی یا پھر اس کی ریگولیشن۔ تاہم سینیٹرز نے خبردار کیا کہ کرپٹو کا غلط استعمال حوالہ، ہنڈی، اغوا اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے لیے ہو رہا ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اغوا کار اب تاوان سونے یا کرپٹو میں مانگتے ہیں، جبکہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں کالعدم تنظیمیں بھی غیر ملکی فنڈنگ کے لیے یہ چینل استعمال کر رہی ہیں۔ سینیٹر دلاور خان نے سوال اٹھایا کہ اس قانون سے ملکی معیشت کو کیا فائدہ ہوگا، ان کے مطابق ریونیو بڑھانے کے لیے ٹیکس کم کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے وضاحت دی کہ یہ بل ورچوئل اثاثہ جات کو ریگولیٹ کرنے، شفافیت بڑھانے اور غیر قانونی مالی بہاؤ روکنے کے لیے بنایا گیا ہے، نہ کہ ٹیکس یا قرضوں پر اثر ڈالنے کے لیے۔سلیم مانڈوی والا نے نتیجہ اخذ کیا کہ چونکہ کرپٹو پہلے ہی غیر رسمی چینلز کے ذریعے سرمایہ کے انخلا کا باعث بن رہا ہے، اس لیے ریگولیشن ناگزیر ہے۔ کمیٹی نے بل کی شق وار جانچ کی اور عندیہ دیا کہ اگلے اجلاس میں اس کی حتمی منظوری دی جا سکتی ہے۔ سینیٹ کمیٹی کا اسٹیٹ بینک گورنر و ڈپٹی گورنر کی خود طے کردہ تنخواہوں پر شدید تحفظات کا اظہار، گورنر اسٹیٹ بینک ماہانہ 40لاکھ روپے تنخواہ و مراعات لے رہے ہیں، کمیٹی نے وضاحت کیلئے طلب کرلیا۔ وزارت خزانہ کا معاملے سے لاتعلقیکا اظہار ، سینیٹر عائشہ رحمٰن کا یکساں نظامِ کیلئے قانون سازی کا مطالبہ، ایس ای سی پی پر بھی سخت تحفظات، افسران نےتنخواہوں میں حکومتی منظوری کے بغیر 38کروڑ اضافہ کر لیا۔سینیٹ کمیٹی نے ورچوئل اثاثہ جات بل 2025 کا بھی جائزہ لیا، کرپٹو کو ریگولیٹ کرنے یا پابندی کی تجاویزدی گئیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر اور ڈپٹی گورنر کی جانب سے اپنے ہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے ماہانہ کروڑوں روپے کی تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں خود طے کرنے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک اس وقت ماہانہ 40 لاکھ روپے تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ ایس بی پی ایکٹ 2022 (جو پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت منظور کیا تھا) کے مطابق وفاقی حکومت کو ان کی تنخواہیں مقرر کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ سینیٹ کمیٹی نے سیکریٹری خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا ہے تاکہ وہ وضاحت دیں کہ کس بنیاد پر اتنی زیادہ تنخواہیں اور مراعات منظور کی گئیں۔وزارت خزانہ کے حکام نے معاملے سے خود کو الگ کر لیا اور کہا کہ اگرچہ سیکریٹری خزانہ بطور رکن ایس بی پی بورڈ اپنی رائے دے سکتے ہیں، لیکن وزارت خزانہ کا ان تنخواہوں کے تعین سے کوئی تعلق نہیں۔یہ مسئلہ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر عائشہ رحمان نے کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا جو چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ عائشہ رحمان نے کہا کہ تنخواہوں اور مراعات کا تعین خود کرنے کا اختیار ختم ہونا چاہیے اور اس کے لیے یکساں قانون سازی کی ضرورت ہے۔کچھ اراکین، جن میں سینیٹر محسن عزیز اور فیصل سبزواری شامل تھے، نے موقف اپنایا کہ متعلقہ قوانین کے تحت تنخواہوں کا تعین بورڈ کا اختیار ہے اور اس معاملے پر اگلا اجلاس اِن کیمرا ہونا چاہیے۔کمیٹی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ 2019 میں 25 لاکھ روپے سے بڑھا کر 2023 میں 40 لاکھ روپے کر دی گئی تھی۔ اراکین نے قانونی ترمیم کا مطالبہ کیا تاکہ ملک کے اعلیٰ ترین بینکار بھی اپنی تنخواہ خود طے نہ کر سکیں۔ عائشہ رحمان نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم بھی اپنی تنخواہیں خود مقرر نہیں کرتے۔