محمد عرفان اللہ اختر
خدمتِ خلق، وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمارکی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنّت رسولﷺ بھی۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ” اور اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبیوں، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں،سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
بےشک، اللہ تکبر کرنے والے اور بڑائی کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (سورۃ النسا، 36)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓروایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے‘‘۔(حاکم المستدرک )
اسلام اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کامیاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لئے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کے عیال کے لئے سب سے زیادہ نافع ہو۔(المعجم الکبیر )
خدمتِ خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپﷺ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو غمگسار شریکِ حیات اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کیفیت کو دیکھ کر عرض کیا:اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا،کیوں کہ آپﷺ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری شریف)
ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے اماں خدیجہ ؓ نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا ”اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔“ (بخاری شریف؍کتاب الایمان)
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ”جو آسودہ ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔“ (المستدرک للحاکم)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے (دشمن کے) سپرد کرتا ہے جو مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا اور جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔(بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا ، تو نے میری عیادت نہ کی،انسان حیران ہو کر کہے گا کہ اے میرے رب تو تو ربّ العالمین ہے، میں تیری کس طرح عیادت کرتا، پھراللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا ، اگر تو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو نے مجھے کھانا نہ دیا ، بندہ عرض کرےگا۔ اے پروردگار ! تو ربّ العالمین ہے۔
تجھے کس طرح کھانا کھلاتا۔ ﷲ تعالیٰ فرمائےگا، کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا،لیکن تو نے اسے کھانا نہ کھلایا۔ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کاثواب میرے یہاں پاتا، اسی طرح اللہ فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، انسان کہے گا اے میرے رب، میں تجھے کس طرح پانی پلاتا ،جب کہ تو ربّ العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا ۔( مسلم شریف)
خدمتِ خلق سے بندہ اللہ کی رضا اور اس کے قرب کا حق دار بن جاتا ہے کہ اللہ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔خدمت کا سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ خادم و مخدوم کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہےاور باہمی قربت بڑھتی ہے، اس کے باعث انسان برے اخلاق اور اس کے دامن فریب سے نجات حاصل کر سکتاہے۔کبر و نخوت ، ظلم و دہشت، جبر و تشدد، جیسی خطرناک بیماریوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔خدمت خلق کے لئے محبت و شفقت اور ہمدردی واخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔خدمت خلق کا فائدہ یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ غیب سے ان کی مدد فر ماتا ہے۔" اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ‘‘ (صحیح ابن ماجہ للالبانی)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘(ترمذی شریف) اللہ کے نبیﷺ نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا کہ ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘ (کنزالعمال) اللہ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے، کم نہیں کرتا تو ہمیں اللہ پاک کی رضا کی خاطر خدمت خلق کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے۔