• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا کا استعمال اور اس حوالے سے راہنما اسلامی تعلیمات

ڈاکٹر نعمان نعیم

گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ اس تیز رفتار تغیر اور ترقی کا سب سے مشہور اور ساتھ ہی سب سے پر اسرار چہرہ ’’سوشل میڈیا ‘‘ ہے۔ ہمارے بچے اور نوجوان نسل ایک ایسے دور میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا ان کی روز مرہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔

نوجوان نسل جو ہر معاشرے کی امید، توانائی اور فکر کا محور ہوتی ہے سوشل میڈیا کے سحر میں کچھ اس طرح سے گرفتار ہے کہ ہمارے نوجوان طبقے کا رات سونے سے پہلے آخری اور صبح بیداری کے بعد پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے موبائل پر سوشل میڈیا چیک کرتا ہے۔ 

جب ایک چیز اس حد تک ہماری زندگیوں میںداخل ہو چکی ہو تو یہ ممکن نہیں کہ وہ ہمارے رویّے، ذہن سازی اور زندگی بسر کرنے کے طور طریقے پر اثر انداز نہ ہو۔ سوشل میڈیا کا استعمال آج کے دور میں زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ اس کی افادیت یا نقصان کا اِنحصار اس بات پر ہے کہ ہم اسے کس طرح اور کن مقاصد کےلیے استعمال کرتے ہیں۔

اسلام ایک عالمی و آفاقی دین ہے جس میں زندگی کے ہر مسئلے اورہردور کے چیلنجزکا حل موجود ہے۔اسلام کی بنیادی ذمہ داریوں میں تبلیغ ہے۔ آج کا دور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اس وقت اسلام دشمن طاقتیں، اسلام مخالف پروپیگنڈوں کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہی ہیں، مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے اور اپنی دینی معلومات کے لیے گوگل اور یوٹیوب کو اہم ذریعہ شمار کررہا ہے اور اس پر موجود مواد کو ہی صحیح دین کا مصدر و مرجع سمجھ رہاہے،مستشرقین اور یہودیوں کے گہرے تعلقات انٹرنیٹ، بلاگس اور سوشل میڈیا سے شروع ہی سے رہے ہیں۔ 

اس کے ذریعہ وہ اسلام و مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں طرح طرح کی افواہیں، پروپیگنڈے پھیلاتے ہیں اور تعلیمات اسلامی کو توڑ مروڑ کر پیش کر تے ہیں۔ ا س کا استعمال اپنے مفادات کے لیے کرتے ہیں اوراور اس دائرہ کار میں اضافہ کے لیے کثرت سے لوگوں کو جوڑتے ہیں۔ 

اس کے برے نتائج ا س وقت بر آمد ہوتے ہیں جب نسل نو کے معصوم صارفین اسلام سے متعلق کچھ جاننا چاہتے ہیں تو یہو دیوں و مستشرقین کے سلجھے اور لچھے دار اسلوب و اندازسے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسی کو حقیقی اسلام تصور کرنے لگتے ہیں اور اپنی زندگی کو انہی کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ 

ان کا معصوم ذہن اس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ حاصل شدہ مواد و مضامین اورافکارو خیالات خام اور تعلیمات اسلامی کے بالکل منافی ہیں۔ سوشل میڈیا موجودہ دور کی ایک اہم ایجاد ہے، جس سے منافع اور مفاسد دونوں وابستہ ہیں اور اس وقت یہ ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

اسلام کی اشاعت، دینی معلومات کی فراہمی، اخلاقی تعلیمات اور جائز معاشی فوائد وغیرہ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔سوشل میڈیا کے استعمال میں شرعی و اخلاقی اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور جو اُمور غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہوں، ان سے اجتناب لاز م ہوگا۔سوشل میڈیا پر باطل اور گمراہ فرقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر بنائی گئیں بہت سی سائٹس موجود ہیں، لہٰذانوجوان نسل سے اپیل ہے کہ وہ ایسی سائٹس کے استعمال سے اجتناب کریں۔

سوشل میڈیا کے جو منفی اور نقصان دہ پہلو ہیں،وہ یہ ہیں :(۱) یہ جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں، کیوںکہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارے کی گرفت نہیں ہے ،جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ، ہر سنی ہوئی بات نقل کردینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ (سورۂ حجرات : ۶)

عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے، ان کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے ، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اورتہمت اندازی کے لئے بھی ایک وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے ، خواہ وہ بات کتنی ہی ناقابل اعتبار ہو تو لوگ عام طور پر اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ، جس کی کھلی مثال رسول اللہ ﷺکے زمانے میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے ، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے۔ 

عصر حاضر میں اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے، فرقہ پرست عناصر تو یہ حرکت کرتے ہی ہیں، لیکن خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں اس کا بڑا اہم رول رہا ہے، اس میڈیا پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت دشمن جذباتی مقررین کی تقریریں بھی موجود ہیں اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان مناظروں کی شرمناک محفلیں بھی، جو بہت تیزی سے باہمی نفرت کو جنم دیتی اور فساد کی آگ بھڑکاتی ہیں۔ 

اس میڈیا کا دہشت گردی اور تشدد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اور استعمال کرنے والوں میں مختلف مذاہب کے خود ساختہ نمائندے شامل ہیں، جنھوں نے لوگوں کی نگاہوں میں دُھول جھونکنے کے لئے مذہب کا مقدس لباس پہن رکھا ہے۔ اس ذریعۂ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو منکرات کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ ہے، جو چیز انسان کو اپنے خلوت کدے میں گوارا نہیں ہوسکتی، وہ یہاں ہر عام و خاص کے سامنے ہے، یہ اخلاقی اقدار کے لئے تباہ کن اور شرم و حیاء کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں، اور افسوس کہ حکومتیں ایسی سائٹس کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں ، ورنہ سماج بے حیائی کے اس سیلاب بلاخیز سے بچ سکتا تھا۔

ان منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سے مثبت اور مفید پہلو بھی ہیں اور اس کا صحیح استعمال کرکے اسلامی اور انسانی نقطۂ نظر سے بہت سےاچھے کام کئے جاسکتے ہیں، جن کا تذکرہ مناسب ہوگا:

(۱) بچوں، نوجوانوں، عورتوں، بوڑھوں اور عام مسلمانوں میں ان کی ضرورت کے لحاظ سے دین کی تعلیم واشاعت اور اخلاقی تربیت کے لئے اسے آسانی کے ساتھ بہت مؤثر طریقے پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

(۲) اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور زیادہ تر اسی راستے سے کی جاتی ہیں ، اسی میڈیا سے ان کا مؤثر طور پر رد کیا جاسکتا ہے۔

(۳) تعلیم کے لئے اب یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ، یا اپنے ٹیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے، اسی طرح وہ اس ذریعہ ابلاغ سے بھی علم حاصل کرسکتا اور اپنی صلاحیت کو پروان چڑھاسکتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی دور دراز دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لئے بھی اس کے ذریعے مشرق و مغرب کے ماہر ترین اساتذہ سے کسب ِفیض کرنا ممکن ہے ، ایسے تعلیمی مفادات کے لئے اس ذریعہ ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔

(۴) صحت و علاج کے شعبے میں بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے ، بلکہ لی جارہی ہے، اس کے ذریعے ماہر ترین معالجین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ ملک میں ایک ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی ملک و براعظم میں بیٹھے ڈاکٹر کے مشورے سے مستفید ہوسکتا ہے۔ 

(۵) موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا نیز نیشنل اور انٹر نیشنل الیکٹرانک میڈیا جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے ، نیز سچی خبروں کو دبانے اور چھُپانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں لگا ہوا ہے اور نہایت مہارت کے ساتھ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بناکر پیش کررہا ہے، ان حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعے سچائی کو پیش کرنے اور جھوٹ کی قلعی کھولنے کی اہم خدمت انجام دی جاسکتی ہے ، چنانچہ عالمی وملکی سطح پر کئی واقعات ایسے ہیں، جن میں سوشل میڈیا کی حقیقت بیانی نے ظالموں اور دروغ گویوں کو شرمندہ کیا۔

سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند اہم نکات یہ ہیں :(۱) چھوٹے اورمعصوم بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے ، تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کردیں ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو ۔(۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے، کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کے تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصان دہ ہے۔ (۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے، وہ ان ذرائع کے ذریعے بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی ، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنا ، مذاق اُڑانا ، سبّ و شتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے ۔(۴) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے، جائز نہیں ہے، اگرچہ کہ وہ سچائی پر مبنی ہوں، اس لئے کہ جو سچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور انسان اور انسان کے درمیان نفرت کے بیج بوتا ہو، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔(۵) ایسی چیزیں دیکھنا ، دِکھانا ، لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ کار میں آتا ہو ، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی ، تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی ، شعر کی شکل میں ہو یا لطیفے کی، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے۔ (۶) نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایسی سائٹس سے دُور رہنا چاہئے، جن کا تعلق دہشت گرد تنظیموں وغیرہ سے ہو، ان کے قریب بھی جانے سے بچنا چاہئے، کیوںکہ یہ چیز غلط راستے پر لے جاتی ہے، یا کم سے کم شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے، اس لئے نوجوانوں کو تہمت کے ان مواقع سے دُور رہنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے، جو انہیں غلط راستے پر ڈال دے، یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا راستہ کھول دے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی بھی قسم کی اقدامی یا جوابی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا، کیوںکہ اس میں بے قصور لوگوں کی موت ہوجاتی ہے ، اسلام تو امن و انسانیت، عفو و درگذر اور محبت و بھائی چارہ کا پیغامبر ہے ،نہ کہ نفرت اور ظلم کا۔

لہٰذا ذرائع ابلاغ کے استعمال خواہ اس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکڑانک میڈیا سے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال میں اس کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔اس سلسلے میں قرآن و سنّت ،اُسوۂ رسول ﷺ ،سیرتِ طیبہ اور تعلیماتِ نبوی ؐسے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔