تفہیم المسائل
سوال: 24 جنوری2025ء کو رات دس بجے میرا بیٹا اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا کہ ہالا روڈ پر ایک خراب ٹریکٹر کھڑا تھا، جس کے پیچھے کوئی لائٹ بھی آن نہیں تھی، میرا بیٹا اس خراب ٹرالر میں اپنی کار سمیت گھس گیا، موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ گاڑی پوری طرح سے تباہ ہوگئی، کیا ٹرالر کے مالک سے دیت اور گاڑی کے نقصان کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟ (ایک سائل، کراچی)
جواب: صورتِ مسئولہ میں یہ’’ قتل باِلسَّبَب‘‘ کی صورت ہے اور ’’ قتل باِلسَّبَب‘‘ میں قاتل کے عصبہ (وُرَثاء) پر دِیَت لازم ہے اور قاتل پر کوئی کفّارہ نہیں ہے، علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ قتل باِلسَّبَب‘‘ یہ ہے کہ مثلاً : کوئی شخص راستے میں کنواں کھودے یا راستے میں پتھر وغیرہ رکھ دے اور کوئی شخص کنوئیں میں گر کر ہلاک ہوجائے یا پتھر سے ٹھوکر کھاکر گرے اور مرجائے،’’کافی‘‘ میں بھی اسی طرح ہے۔
اگر کسی شخص کو کسی سواری نے روند ڈالا اور وہ ہلاک ہوگیا اور یہ (یعنی جس پر قتل کا الزام ہے) اُس سواری کو چلا رہا تھا، پس یہ بھی قتل باِلسَّبَب میں شامل ہے ، ’’مضمرات ‘‘ میں اسی طرح سے ہے۔
پس ہم (اَحناف) اس کے عصبات پر دیت واجب کرتے ہیں، تاکہ انسانی جان رائیگاں جانے سے بچ جائے اور اس شخص پر کفّارہ واجب نہیںہوگا اور اگر (قتل کے سبب سے متعلق شخص مقتول کا وارث ہے)تو وہ مقتول کی وراثت سے محروم نہیں ہوگا،’’کافی‘‘ میں بھی اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد6،ص: 3)‘‘۔
حسب ذیل صورتیں بھی قتل باِلسَّبَب میں داخل ہیں:۱۔کوئی شخص کسی جانور کو ہانک کر لے جارہا ہو اور وہ جانور کسی شخص کوٹکر مار کر ہلاک کردے۔۲۔کوئی شخص تیز رفتار گاڑی چلائے اور اس کی ٹکر سے کوئی شخص ہلاک ہوجائے۔۳۔کوئی اناڑی شخص گاڑی چلائے اور اس کی گاڑی کے نیچے کوئی آکر ہلاک ہوجائے۔۴۔ کوئی شخص نشے کی حالت میں گاڑی چلائے اور اس کی گاڑی کے نیچے آکر کوئی شخص مرجائے‘‘۔
قتل باِلسَّبَب قتلِ خطا ہی کی ایک قسم ہے، قتلِ خطا کی دیت کے بارے میں علامہ ابو الحسن مرغینانی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’امام اعظم ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک قتلِ خطا میں پانچ قسم کی سو اونٹنیاں ہیں: بیس دوسرے سال کی اونٹنیاں، بیس تیسرے سال کی اونٹنیاں، بیس دوسرے سال کے اونٹ، بیس چوتھے سال کی اونٹنیاں، اور بیس پانچویں سال کی اونٹنیاں یا ایک ہزار طلائی دینار یا دس ہزار چاندی کے درہم ہوں، (الھدایۃ، جلد:8،ص:72,73)‘‘۔ (جاری ہے)