• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چائے کے ہوٹل میں باہر والے کے بطور کمیشن پر کام کرنے اور دیگر عقود کا حکم

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:1.ہمارے یہاں ہوٹل میں ایک یا دو آدمی (باہر والے) ہوتے ہیں، جو لوگوں کے لیے باہر چائے لے کر جاتے ہیں، انہیں 100 روپے پر 20 روپے ملتے ہیں، جو بطور کمیشن ہوتے ہیں، اس کمیشن کے علاوہ ان سے کوئی اجرت طے نہیں ہوتی، وہ ہوٹل والے کے باقاعدہ ملازم نہیں ہوتے، کیا اس طرح طے کرکے کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟ وجہ شبہ یہ ہے کہ یہ اجارہ ہے، اور اجارے میں اجرت اور مدّت کی تعیین ضروری ہے، جب کہ یہاں اجرت مبہم ہے۔

2.لوگ ہوٹل کرائے پر لیتے ہیں، پھر اسی ہوٹل میں اضافی کام کرکے اور اس پر محنت کرکے آگے دوسرے شخص کو زیادہ کرائے پر دیتے ہیں، یہ درست ہے کہ نہیں؟

3.دو آدمی مل کر ہوٹل کرائے پر لیتے ہیں ،پھر اس کے لیے سامان وغیرہ لاتے ہیں، اور ہوٹل میں تھوڑا بہت کام کرتے ہیں، اس کی مرمت وغیرہ کرتے ہیں پھر اس میں سے ایک یا دونوں آدمی اپنے حصے کروڑ روپے لے کر بیچتے ہیں ،جب کہ اس میں سامان وغیرہ زیادہ سے زیادہ 30سے 35 لاکھ کا بنتا ہے ،زیادہ قیمت پر اس لیے فروخت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس ہوٹل کو ہم نے مشہور کیا اور ہم نے اس میں بہت محنت کی ازروئے شرع اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:1.واضح رہے کہ کمیشن کے استحقاق کے لیے درج ذیل تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

٭ …جس کام پر کمیشن لیا جا رہا ہے وہ کام فی نفسہ جائز ہو۔٭ …کام بھی متعین ہو، بروکر و کمیشن ایجنٹ واقعی کوئی معتد بہ عمل انجام دے ۔٭ …کمیشن (اجرت) جانبین کی رضامندی سے بلاکسی ابہام کے متعین ہو۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں چائے والے کے پاس (باہر والے ) کا اس طرح کمیشن طے کرکے کام کرنا جائز ہے، فقہاء نے تعامل اور ضرورت کی بناء پر اس معاملے کو جائز قرار دیا ہے۔

2.کرایہ کی دکان جتنے کرائے پر لی جائے اتنے ہی کرائے پر کسی اور کو دینا جائز ہے، تاہم دو صورتوں میں پہلے کرائے سے زائد کرائے پر دکان دی جاسکتی ہے:

دوسرا کرایہ پہلے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں ہو تو یہ آگے روپے کے بجائے کوئی اور چیز کرایہ مقرر کرے۔ کرایہ دار نے اس کرایہ کی دکان میں کچھ اضافی کام (مثلاً رنگ، ٹائلز، یا اس میں کوئی اضافہ یا دیگر تعمیراتی کام) کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔ چوں کہ سوال میں مذکورہ صورت دوسری صورت کے حکم میں آتی ہے، لہٰذا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہوگا۔ (جاری ہے)