انصار عباسی
اسلام آباد…ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے خیبر پختونخوا میں 215؍ میگاواٹ کے مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کے 153؍ ملین ڈالر (43ارب پاکستانی روپے)مالیت کے پروکیورمنٹ پراسیس میں سنگین بے ضابطگیوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ورلڈ بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحقیقات کرے اور ضرورت پڑنے پر بولی کے عمل کو منسوخ کر کے دوبارہ شروع کرے۔ ٹی آئی پی نے ورلڈ بینک کی پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر مس بولورما آمگابازر کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ادارے کو ایک باقاعدہ شکایت موصول ہوئی ہے جس میں خیبر پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کی جانب سے ورلڈ بینک کے تعاون سے چلنے والے خیبر پختونخوا ہائیڈرو پاور رینیوبل انرجی ڈویلپمنٹ (کے ایچ آر ای) پروجیکٹ کے تحت کیے گئے پری کوالیفکیشن اور ایویلیوایشن کے عمل میں ’’سنگین خلاف ورزیوں‘‘ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ خط کے مطابق، مشکوک اہلیت کے باوجود ایک جوائنٹ وینچر کو پری کوالیفائی کر لیا گیا۔ نگران ادارے نے عائد کیا کہ اس جوائنٹ وینچر میں نوے فیصد حصہ رکھنے والی کمپنی نے اپنی کارپوریٹ حیثیت کو غلط پیش کیا۔ اس نے خود کو پرائیویٹ کمپنی ظاہر کیا جبکہ دراصل وہ ریاستی ملکیتی کمپنی ہے، جو کہ ورلڈ بینک کے قواعد کے مطابق اس وقت تک ممنوع ہے جب تک سخت خود مختاری کی شرائط پوری نہ ہوں۔ ٹی آئی پی نے مالی بے ضابطگیوں پر بھی سوالات اٹھائے۔ رپورٹ کے مطابق کمپنی نے مسلسل چار برس (2019ء تا 2022ء) منفی کیش فلو ریکارڈ کیا، جبکہ 2023ء میں اس کی مجموعی آمدن صرف 16.6؍ ملین ڈالر تھی، جو کہ ’’اربوں ڈالر کے ہائیڈرو پاور منصوبوں میں شمولیت کیلئے غیر متناسب طور پر کم‘‘ قرار دی گئی۔ اس کے باوجود کمپنی نے 2023ء میں 57.2؍ ملین ڈالر منافع (ٹیکس سے قبل) ظاہر کیا، جس سے مالی شفافیت پر شبہات پیدا ہوئے۔ مزید یہ کہ لازمی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے کمپنی نے کسی مستند بینک یا مالیاتی ادارے کے بجائے ایک بروکریج فرم کا سپورٹ لیٹر جمع کرایا جس میں صرف 15؍ ملین ڈالر کی مشروط سہولت کی پیشکش کی گئی۔ ٹی آئی پی نے کہا کہ ’’یہ الزامات بادی النظر میں درست لگتے ہیں‘‘۔ ورلڈ بینک کے رہنما اصول واضح طور پر ایسی ریاستی کمپنیوں کو ممنوع قرار دیتے ہیں جو مالی خود مختاری نہ رکھتی ہوں یا اپنے آجر کے زیر اثر ہوں۔ اسی طرح جوائنٹ وینچر کے لائبیلٹی اسٹرکچر پر بھی سوال اٹھایا گیا جو قواعد کے مطابق ’’جوائنٹ اینڈ سیورل لائبیلٹی‘‘ کی شرط کیخلاف ہے۔ ٹی آئی پی نے ورلڈ بینک، حکومت خیبر پختونخوا اور متعلقہ نگران اداروں بشمول وزیراعظم آفس، رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ اور ورلڈ بینک انٹیگریٹی یونٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں اور پروکیورمنٹ قواعد پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ خط میں زور دیا گیا کہ ’’اگر الزامات درست ثابت ہوں تو ورلڈ بینک اپنے انسداد بدعنوانی پالیسیوں کے تحت کارروائی کرے اور پروکیورمنٹ عمل دوبارہ شروع کرے‘‘۔ ٹی آئی پی نے اعادہ کیا کہ قانون کی بالادستی کا یکساں نفاذ ہی کرپشن روکنے اور میگا ترقیاتی منصوبوں میں بے ضابطگیوں کیخلاف زیرو ٹالرنس کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔