میرا خیال ہے میں زندگی میں تین بار جوان ہوا ہوں، ایک دفعہ ساہیوال سے دوسری دفعہ گوجرانوالہ سے اور تیسری دفعہ لاہور سے۔ مجھے ’’اطلاع‘‘ ملی تھی کہ میں نوجوان ہوں اور یہ آج سے 55سال پہلے کی بات ہے۔ صرف یہی نہیں کہ میں جوان ہوں بلکہ مجھے یہ اطلاع بھی مختلف حلقوں سے ملی کہ میں خوبصورت بھی ہوں۔ حالانکہ میری بہنیں یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں تھیں۔ تو انہوں نے میرا نک نیم ’’شہزادہ‘‘ رکھا ہوا تھا، مجھے نوجوان سمجھنے اور بنانے میں پاکستان کے مختلف شہروں کی ’’محسنات‘‘ شامل تھیں۔ یہ میرے کالم کی قاری یا قاریہ کہتی تھیں جس کالم کے ساتھ میری ایک بدنما تصویر شائع ہوتی تھی مگر ان کا اصرار تھا ماشاء اللّٰہ، اللّٰہ نے آپ کو بہت خوبصورت بنایا ہے۔ اس طرح کا کوئی خط موصول ہونے پر میں فوراً آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوتا تھا جس سے میرا موڈ آف ہو جاتا اور میں’لعنۃ اللّٰہ علی الکذبین‘ کا ورد کرتا ہوا آئینے کو اپنے دیدار سے محروم کر دیتا، مگر اللّٰہ جسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے تو ملاقات پر بھی وہ وہی کلمات دہراتیں جو ان کے خطوط میں لکھے ہوتے تھے۔ اب اگر اللّٰہ کسی کی آنکھوں پر پردہ ڈال دے تو انسان کیا کر سکتا ہے۔صف اول کے افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس یونس جاوید نے مجھے متعدد بار بتلایا کہ فلاں شاعرہ جن کے حسن کے چرچے چار دانگ عالم میں تھے، وہ آپ کو صرف پسند نہیں کرتی ہیں بلکہ ان کی یہ پسندیدگی عشق کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ آپ پلیز ان سے ایک دفعہ مل لیں، یونس جاوید کمال کا افسانہ نگار ہی نہیں، صف اول کا ڈرامہ نگار بھی ہے اور مور اوور میرا دوست بھی چنانچہ میں انکار نہ کر سکا، اس حوالے سے میرا یہ لکھا ’’بوتا‘‘ سمجھیں۔ بہرحال اللّٰہ کا شکر ہے زندگی بہت خوبصورت ہے۔ اپنے ’’حُسن‘‘ کا تذکرہ اتنی جلدی ختم کرنے کو جی نہیں چاہتا، لیکن کرنا پڑے گا کیونکہ میں اب 82 سال کا ایک بدصورت بوڑھا ہوں۔ میں ان قارئین کا بے حد شکر گزار ہوں گا جو یہ کالم پڑھ کر لکھیں سر آپ کسر نفسی سے کام نہ لیں، آج بھی آپ اٹھارہ سال سے زیادہ کے نہیں لگتے اور آپ کے حُسن کا لشکارا دور دور تک جاتا ہے۔میں اگر یہ باتیں کر رہا ہوں تو پریشان نہ ہوں کہ ’’بظاہر‘‘ یہ معقول شخص آج کیسی باتیں کر رہا ہے، آپ یقین کریں مجھے آپ کی اس حیرانی پر کوئی حیرانی نہیں ہوگی کہ جانتا ہوں آپ میں سے چند ایک لوگ ایسے بھی ہیں جو میرے ملنے والے ہیں۔ وہ میرے حُسن کے قصیدے اور میں ان کے حُسن کے قصیدے پڑھتا رہتا ہوں، اسے آپ ایک ہاتھ دیں دوسرے ہاتھ لے لیں والے محاورے سے نہ جا ملائیں کیونکہ کچھ محاورے غلط بھی ہوتے ہیں اور یہ ان میں سرفہرست ہے، اگر آپ سارا دن گھر پہ بیٹھے رہتے ہیں ، اخبار نہیں پڑھتے، لوگوں سے ملنا جلنا ہی نہیں ہے، آپ اس صورت حال سے ناواقف ہوں گے کہ یہ لیڈر کے حصے میں لوگوں کی ایک تعداد آئی ہے جو ان کے قصیدے پڑھتی ہے اور نہ ماننے والوں سے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتی ہے۔ الیکشن کے دنوں میں ان کی پسندیدگی اور مخالف گروپ کی ناپسندیدگی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے، جبکہ آپ ان دونوں کے لیڈروں کو بقلم خود دیکھ لیں تو ان لیڈروں کو تو کچھ نہ کہیں، ان کے عاشقوں کی کم از کم ایک دفعہ تو طبیعت صاف کریں، ان میں سے اکثر کے چہروں پر کرپشن کے ’’موہکے‘‘ نکلے ہوتے ہیں، ایک دفعہ اور معافی چاہتا ہوں کہ آپ اور میرے سیاسی معشوقوں میں یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف آپ سے محبت کریں، وہ آپ سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہوتے ہیں اور آدھی رات کو جب آپ خوابِ غفلت میں پڑے ہوتے ہیں، وہ اپنے پرائیویٹ فون پر اس طاقت ور شخص سے محو گفتگو ہوتے ہیں جس نے اسے آ گے لے جانا ہوتا ہے۔ آپ کو میری یہ بات سن کر دکھ ہوگا کہ ان کے نزدیک آپ اور آپ کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ تو صبر کے گھونٹ پی کر بڑی شرافت سے ایک طرف ہو جاتے ہیں لیکن جنہیں اپنے محبوب کی بے وفائی کا صدمہ ہوتا ہے اور ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے، وہ جوابِ آں غزل کے طور پر اپنا رُخ ان کی طرف کر لیتے ہیں جن کا دل آپ کے سابق محبوب سے کہیں زیادہ بدنصیبوں کا دل توڑا ہوتا ہے۔ابھی میں نے الیکشن کا ذکر کیا تو بلاوجہ میری ہنسی نکل گئی، میں نے گزشتہ دو الیکشنز میں ووٹ ڈالا ہے مگر میرا ووٹ اتنا منحوس ہے کہ ہر دفعہ کامیابی اسے ملی جسے میں نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، سو تیسرے الیکشن میں فیصلہ کیا کہ اب کے اپنا منحوس ووٹ اس اُمیدوار کو ڈالوں گا جو مجھے زہر لگتا ہے مگر پتہ چلا کہ میرا زہر تریاق کی مانند ہے، یہ سارا زہر خود چوس لیتا ہے۔ سو تمام سیاسی جماعتوں کیلئے دعوتِ عام ہے کہ وہ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور میرے ووٹ کی نیلامی میں حصہ لیں، میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ گنتی میں خود کروں گا تاکہ کسی بے ایمانی کا میرے لیے کوئی چانس نہ رہے، نیلامی صرف ایک لاکھ سے شروع ہوگی اور ایک کروڑ پر ختم ہو جائے گی، زیادہ سے زیادہ بولی لگانے والے، سب سے قیمتی ووٹ یعنی میرا ووٹ اس کا ہوگا۔ میں ووٹ ڈالنے سے پہلے عربی کے کچھ کلمات پڑھوں گا جو میرے پیر صاحب نے مجھے عطا کیے ہیں اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی بتایا کہ انہیں کشف کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ جیت تمہاری ہوگی اور کشف کی ایک اور بات کہ جیت کی صورت میں مجھے آستانہ عالیہ پکھنڈ شریف پر نذرانے کی اس رقم کا نصف نذر کرنا ہوگا۔ میں نے قبلہ سے وعدہ کر لیا ہے کیونکہ وعدے کا کیا ہوتا ہے، ہم تو اللّٰہ سے کیے ہوئے اس وعدے کا پاس بھی نہیں کرتے جو ہم ہر نماز میں کرتے ہیں، اس جملے سے آپ کو اندازہ ہو گیا کہ الحمد اللّٰہ میں نمازی پرہیزگار انسان ہوں۔یہ کالم بھی عجیب چیز ہے، شروع میں نے اپنے حُسن کے بیان سے کیا تھا اور ختم معاشرے کی بدصورتیوں کے بیان پر کر رہا ہوں مگر آپ حیران نہ ہوں کالم کے آغاز اور اختتام میں کوئی تضاد نہیں ہے، بس اس حوالے سے ایسے کسی شخص کی گواہی معتبر نہیں سمجھی جائے گی جس نے مجھے دیکھا ہو۔