اسلام آباد (ایجنسیاں)نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت غزہ میں امن فوج کی حمایت کیلئے اپنے فوجی بھیجنے سے متعلق فیصلہ کرے گی‘ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو من و عن تسلیم نہیں کیا گیا‘ پاکستان نے اس میں ترامیم کیں‘ابھی جو دستاویز ہے وہ امریکا نے جاری کی ہے ‘اگر اس میں ہماری تجاویز شاملنہیں ہیں تو شامل ہونی چاہئیں‘ سیاست کے لیے غزہ امن منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہاں معصوم شہریوں کا خون بہتا رہے،خدارا کسی چیز میں تو سیاست کو نہ لائیں‘امن منصوبے پر سیاست نہ کی جائے ‘ چاہتے ہیں کہ غزہ کے عوام کی تکالیف ختم ہوں‘اس معاملے پر بہت زیادہ کام ہوا، بات چیت کے کئی دور ہوئے، گزارش ہے کہ اچھے کام کو متنازع نہ بنائیں‘فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی‘پاکستان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے اور فلسطینی عوام کیلئے منصفانہ اور دیرپا امن کی حمایت پر برادر ممالک اور امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ منگل کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئےاسحٰق ڈار کا کہنا تھاکہ فلسطین میں گراؤنڈ پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کام کریں گے‘انڈونیشیا نے فلسطین میں20ہزار امن فوج تعینات کرنے کی پیشکش کی ہے‘امید ہے پاکستان بھی اس حوالے سے فیصلہ کرے گا۔ انہوںنے کہاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے سربراہان کی ملاقات کا مقصد غزہ میں امن واپس لانا تھا۔ غزہ میں قیام امن کے لیے وزیراعظم شہباز شریف بالکل واضح تھے، ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے قبل ہی غزہ کے مسئلے پر مسلم ممالک سے رابطے شروع کر دیئے تھے، پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے غزہ میں امن بحال کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک میٹنگ شیڈول کی، میٹنگ کے ایجنڈے میں غزہ میں فوری طور پر سیز فائر کی کوشش، معصوموں کا خون بہنے کا سلسلہ روکنا، پٹی میں امداد پہنچانے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اسلامی ممالک نے صدر ٹرمپ کو دوران ملاقات تفصیل کے ساتھ اپنا ایجنڈا پیش کیا، جس پر امریکی صدر نے کہا کہ میری ٹیم اور آپ لوگ بیٹھ کر کوئی قابل عمل پرپوزل لے کر آئیں جس کے بعد ہماری کچھ ایسی میٹنگ بھی ہوئیں، جن کے حوالے سے اتفاق کیا گیا تھا کہ وہ کلاسیفائیڈ اور سیکریٹ ہوں گی، انہیں پبلک نہیں کیا جائے گا، ان ملاقاتوں کا نہ تو کوئی ذکر ہوگا اور ان ہی ان کی کوئی تفصیل جاری کی جائے گی‘ان تمام میٹنگز میں ہم نے شرکت کی،ان سیکریٹ میٹنگز کا تمام کام سافٹ ویئر کے بجائے پیپر ورک پر کیا گیا، پیغام رسانی کا کام بھی ہارڈ کاپیز کے ذریعے کیاگیا‘میسینجر پیغامات کو دونوں جانب پہنچا رہے تھے‘ان اجلاسوں کے دوران کچھ تجاویز ہم نے دیں اور کچھ امریکی ٹیم کی جانب سے دی گئیں۔جب ہم امریکا سے لندن روانہ ہو رہے تھے، تو کینیڈا کے بارڈر پر فیولنگ کے دوران ایمبیسڈیر آصف افتخار نے کال کر کے پوچھا کہ کیا یہ پروپوزل بغیر دستخط کے جائیں گے یا اس پر 8 ممالک کے دستخط ہوں گے۔وزیرخارجہ کے مطابق ایک دو ممالک سائن کرنے کے بھی خواہشمند تھے، ہم نے کہا کہ وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے، دونوں پرپوزل برابری کی بنیاد پر تھے، جو جمعہ (26 ستمبر) کی رات امریکی سائیڈ تک پہنچ گئے تھے۔ کلاسیفائیڈ ملاقاتوں کے حوالے سے پاکستان سمیت آٹھوں ممالک کی کوشش تھی کہ ان ملاقاتوں کو کسی بھی صورت ثبوتاڑ نہیں ہونے دینا چاہیے۔ نائب وزیراعظم کے مطابق سعودیہ عرب کے وزیر خارجہ نے رابطہ کر کے کہا کہ5ممالک نے مشترکہ بیان پر اتفاق کر لیا ہے، پاکستان، انڈونیشیا اور یو اے ای کا انتظار کیا جارہا ہے، جس کے بعد ہم نے مشاورت کر کے کچھ مزید تبدیلی تجویز کیں اور انہیں دوبارہ سعودی وزیر کو بھیجا،سعودی وزیر خارجہ نے دوبارہ ہم سے رابطہ کر کے بتایا کہ پاکستان کی تجاویز کو قبول کر لیا گیا ہے، یہ رابطے گزشتہ رات گئے تک جاری رہے، جس کے بعد تمام ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔انہوں نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی نے اس اعلامیے کو خوش آئند قرار دیا ہے، آٹھوں ممالک نے اس معاہدے کو ویلکم کیا ہے۔