کراچی(نیوزڈیسک)یورپ کے بڑے شہروں میں اسرائیل مظالم کے خلاف ہزاروں افراد مظاہرے کر رہے ہیں، جن میں برطانیہ، اٹلی، اسپین اور پرتگال کے بڑے شہری مراکز میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسپین کے دوسرے بڑے شہر بارسلونا اور میڈرڈ میں مظاہرے کئی ہفتے قبل ہی شیڈول کر لیے گئے تھے۔جبکہ روم اور لزبن میں احتجاجی کال اُس وقت دی گئی جب اسرائیلی افواج نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کو روک کر کشتیوں میں سوار 450سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا۔گرفتار افراد میں 40سے زائد ہسپانوی بھی شامل ہیں، جن میں بارسلونا کے سابق میئر بھی موجود ہیں۔اٹلی میں پہلے ہی 3 اکتوبر کو ایک روزہ عام ہڑتال کے دوران ملک بھر میں 20لاکھ سے زائد افراد نے غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔اسپین میں حالیہ ہفتوں میں فلسطینیوں کے لیےحمایت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جبکہ اسپینش حکومت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف سفارتی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔گزشتہ ماہ اسپین میں اسرائیلی ملکیتی سائیکلنگ ٹیم کی موجودگی کے خلاف مظاہرے کیے گئے، جس کی وجہ سے متعدد بار ولاٹا سائیکلنگ ایونٹ کو روکنا پڑا، جبکہ ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے غزہ پر اسرائیلی مظالم کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے تمام اسرائیلی ٹیموں پر بین الاقوامی کھیلوں میں پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔یورپ میں مظاہروں کی کال اس وقت سامنے آئی جب حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ امن منصوبے کے بعض نکات ماننے کا فیصلہ کیا، تاکہ 2سالہ جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے، جس میں 66ہزار سے زائد افراد شہید اور غزہ تباہ ہو چکا ہے۔بارسلونا کے ٹاؤن ہال نے بتایا کہ پولیس کے مطابق آج ہونے والے مظاہرے میں 70ہزار افراد شریک ہوئے۔بارسلونا کی مرکزی شاہراہ پاسئیگ دے گراسیا عوام سے بھر گئی، بڑی تعداد میں فیملیز، خواتین، بچے اور بزرگ شریک ہوئے، مظاہرین فلسطینی پرچم اُٹھائے یا فلسطین کے حق میں ٹی شرٹس پہنے ہوئے تھے۔ہاتھوں میں پکڑے گئے بینرز پر لکھا تھا کہ ’غزہ مجھے دکھ دیتا ہے‘، ’نسل کشی بند کرو‘ اور ’فلوٹیلا کو نہ روکو۔63سالہ ماریا جیسس پارا فلسطینی پرچم اٹھائے اپنے شہر سے ایک گھنٹے کا سفر کر کے بارسلونا پہنچی، انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں یورپی یونین ان مظالم کے خلاف قدم اُٹھائے جو وہ روزانہ خبروں میں دیکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک نسل کشی کو براہِ راست اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، جبکہ یورپ نے خود 1940کی دہائی میں یہ سب کچھ دیکھا تھا، اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہیں پتا نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔