دائمی تھکن کے مرض کی تشخیص میں سنگ میل، دنیا کا پہلا خون کا ٹیسٹ تیار، سائنس دانوں نے برسوں سے لاعلاج سمجھے جانے والے مرض کی شناخت کا مؤثر طریقہ دریافت کرلیا
کراچی (بابر علی اعوان) بین الاقوامی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دنیا کا پہلا خون کا ٹیسٹ تیار کر لیا ہے جو مایلجک اینسیفیلومیلائٹس یعنی کرونک فیٹیگ سنڈروم (ME/CFS) کی درست تشخیص کر سکتا ہے۔ ایک ایسے مرض کی تشخیص جو برسوں سے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو مفلوج کر چکا ہے مگر اس کی پہچان آج تک ممکن نہیں تھی۔ یہ بیماری غیر معمولی جسمانی اور ذہنی تھکن، نیند کی خرابی، عضلاتی درد اور ارتکاز کی کمی جیسے سنگین اثرات کا باعث بنتی ہے جبکہ عام آرام سے بھی مریض کو افاقہ نہیں ہوتا۔ فی الحال اس مرض کا کوئی مخصوص تشخیصی ٹیسٹ موجود نہیں اور ڈاکٹروں کو صرف علامات کی بنیاد پر اندازہ لگانا پڑتا ہے جس کے باعث بے شمار مریض برسوں تک بغیر تشخیص کے رہے۔ یہ اہم تحقیق یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا اور آکسفورڈ بایوڈائنامکس کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی جس کی تفصیلات معروف سائنسی جریدے “جرنل آف ٹرانسلیشنل میڈیسن” میں شائع ہوئیں۔ تحقیقی ٹیم نے 47 شدید ME/CFS مریضوں اور 61 صحت مند بالغوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔ سائنس دانوں نے ڈی این اے کے “فولڈنگ پیٹرن” یعنی ساختی تغیرات کا مطالعہ کیا جس سے ایک منفرد جینیاتی پیٹرن سامنے آیا جو صرف ME/CFS کے مریضوں میں موجود تھا اور یہی اس نئے ٹیسٹ کی بنیاد بنا۔ تحقیق کے مطابق یہ نیا ٹیسٹ 92 فیصد حساس (sensitive) اور 98 فیصد درست (specific) ثابت ہوا، یعنی یہ ٹیسٹ نہ صرف مریضوں میں بیماری کی شناخت مؤثر انداز میں کرتا ہے بلکہ صحت مند افراد میں غلط نتیجے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے ناروچ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے مرکزی محقق پروفیسر دمتری پشیزیتسکی نے کہا کہ ME/CFS ایک سنگین اور اکثر معذور کر دینے والی بیماری ہے جسے بدقسمتی سے طویل عرصے سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ کئی مریضوں کو یہ تک کہا گیا کہ یہ سب ‘ان کے ذہن کا وہم’ ہے۔ اب پہلی بار ہمارے پاس ایک سادہ مگر مؤثر خون کا ٹیسٹ ہے جو اس بیماری کی قابل اعتماد تشخیص کر سکتا ہے۔ یہ پیش رفت اس بیماری کے علاج اور دیکھ بھال کے طریقوں میں انقلاب لا سکتی ہے۔ آکسفورڈ بایوڈائنامکس کے چیف سائنسی افسر الیکزنڈر اکولیتچیف نے وضاحت کی کہ ME/CFS کوئی موروثی بیماری نہیں بلکہ زندگی کے دوران جینیاتی سطح پر تبدیلیوں سے پیدا ہوتی ہے اسی لیے ہم نے EpiSwitch epigenetic markers استعمال کیے، یہ ایسے مارکرز ہیں جو انسان کی زندگی میں بدل سکتے ہیں اور انہی کی مدد سے ہمیں یہ غیر معمولی درستگی حاصل ہوئی۔ دوسری جانب کئی آزاد ماہرین نے اس پیش رفت کو “حوصلہ افزا مگر ابتدائی مرحلے کی کامیابی” قرار دیا ہے۔