انصار عباسی
اسلام آباد :…پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبر پختونخوا میں نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کرنے کی جلدی میں ہے، یہاں تک کہ علی امین گنڈاپور کے استعفے کی باضابطہ منظوری اور نوٹیفکیشن کا انتظار تک نہیں کیا جا رہا۔ جلد بازی کا یہ قدم ایک آئینی بحران پیدا کر سکتا ہے اور وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے عمل کو ہی روک سکتا ہے۔ تاہم، پی ٹی آئی کی اکثریت چاہتی ہے کہ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد فوری طور پر صوبائی پارلیمانی پارٹی سہیل آفریدی کو نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کرے۔ اور اس سلسلے میں کسی بھی وقت صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر رہنما چاہتے ہیں کہ یہ تبدیلی جلد مکمل ہو، تاہم سینئر ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس جلد بازی کے قانونی نتائج پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ اُس وقت ہی خالی سمجھا جاتا ہے جب گورنر استعفیٰ قبول کرتا ہے۔ گورنر کی منظوری اور سرکاری نوٹیفکیشن کے بغیر عہدہ قانونی طور پر خالی نہیں سمجھا جا سکتا، لہٰذا نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کرنے کا عمل آئینی تنازع میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ایک سینئر ماہر قانون کا کہنا ہے کہ کابینہ اُس وقت تحلیل ہوتی ہے جب وزیرِ اعلیٰ کا استعفیٰ منظور ہو جاتا ہے۔ اُس وقت تک علی امین گنڈاپور ہی آئینی طور پر وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ بات پی ٹی آئی کے اندرونی اجلاسوں میں بھی زیرِ بحث آئی کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی کے استعفے فوری طور پر قبول نہیں کیے گئے تھے، جس کے باعث پارٹی کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ ان رہنمائوں نے خبردار کیا کہ اگر اس بار بھی قانونی ضوابط نظر انداز کیے گئے تو سہیل آفریدی کا انتخاب نہ صرف چیلنج ہو سکتا ہے بلکہ تاخیر یا مکمل تعطل کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ ایک سینئر پی ٹی آئی رہنما نے پارٹی کے اندر ہونے والی ہیرا پھیری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے اندر کوئی شخص جان بوجھ کر نئے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کو روکنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ پارٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی انتخاب ’’جلد از جلد‘‘ کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، حالانکہ گورنر ہائوس نے تاحال گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ استعفے کی منظوری کے بغیر انتخابی عمل قانونی طور پر ناقص سمجھا جائے گا۔ پارٹی کے اندر بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ایسے حالات میں ہوا کوئی بھی انتخاب قانون کی نظر میں کالعدم ہو گا۔ پارٹی کے اندر بڑھتی تقسیم اور قانونی ابہام کے پیشِ نظر، علی امین گنڈاپور کی جلد بازی میں تبدیلی خیبر پختونخوا کو ایک اور سیاسی اور آئینی بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے۔