• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PRCL کے سابق CEO کی تنخواہ، مراعات میں بے ضابطگیاں، انکوائری مکمل

انصار عباسی

اسلام آباد :…سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ (پی آر سی ایل) کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کی متنازعہ تعیناتی اور ان کی تنخواہ میں بھاری اضافے کی انکوائری مکمل کر لی ہے، جس میں کمپنی کے بورڈ کو متعدد قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ تحقیقات کے بعد ایس ای سی پی نے فیصلہ کیا ہے کہ بورڈ کیخلاف کارروائی کی جائے گی، جبکہ سی ای او کے معاوضے میں اضافے کا معاملہ وزارتِ تجارت کو بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ ایس ای او ایکٹ کے تحت مناسب کارروائی کر سکے۔ 14؍ اکتوبر 2025 کو وزارتِ تجارت کو لکھے گئے خط میں ایس ای سی پی نے کہا کہ مذکورہ شخص کی بطور قائم مقام سی ای او تقرری کیلئے وفاقی حکومت اور نہ ہی کمیشن سے کوئی منظوری حاصل کی گئی۔ مزید کہا گیا کہ تقرری کے وقت   سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر  کے پاس مطلوبہ تجربہ بھی نہیں تھا، اس کے باوجود پی آر سی ایل بورڈ نے ان کیلئے ایک اضافی معاوضہ پیکج منظور کیا جو وفاقی حکومت کی منظور کردہ ایس پی پی ایس تھری (اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل) سے کہیں زیادہ تھا۔ ایس ای سی پی کی رپورٹ کے مطابق بورڈ نے بظاہر متعدد قانونی شقوں کو نظرانداز کیا، جن میں کمپنیز ایکٹ 2017، انشورنس آرڈیننس 2000، انشورنس کمپنیز (ساؤنڈ اینڈ پروُڈنٹ مینجمنٹ) ریگولیشنز 2012، اور پبلک سیکٹر کمپنیز (کارپوریٹ گورننس) رولز 2013 شامل ہیں۔ کمیشن نے متعلقہ افسران اور پی آر سی ایل کیخلاف عدالتی کارروائی کی سفارش کی ہے۔ مزید بتایا گیا کہ اکتوبر 2023ء میں ایس او ای ایکٹ 2023ء کے نفاذ کے بعد بھی، پی آر سی ایل بورڈ نے اپنی 178ویں میٹنگ (2؍ اکتوبر 2023ء) میں سی ای او کے معاوضے میں ازسرِ نو اضافہ کیا، اور اسے فروری 2023ء سے موثر قرار دے دیا، جو کہ قانونی طور پر ماضی سے اطلاق (ریٹرو اسپیکٹیو افیکٹ) کیخلاف ہے۔ ایس ای سی پی نے واضح کیا کہ ایس ای او ایکٹ کی شق 36(3) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ یہ قانون ماضی سے لاگو نہیں ہو سکتا۔ چونکہ ایس او ای ایکٹ ایس ای سی پی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، لہٰذا معاملہ وزارتِ تجارت کو بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ ’’ضرورت کے مطابق کارروائی‘‘ کرے۔ یہ انکوائری اُس وقت شروع ہوئی جب دی نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ اسی سی ای او نے صرف 32؍ ماہ میں 35؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں وصول کیے، جو مکمل طور پر بورڈ کی منظوری سے دیا گیا۔ ان انکشافات کے باوجود وزارتِ تجارت نے ابتدائی طور پر کوئی کارروائی نہیں کی، تاہم وزیراعظم آفس نے بعد میں معاملہ ایس ای سی پی کو بھیج دیا۔ اب کمیشن کی رپورٹ نے قانونی خلاف ورزیوں کی باضابطہ تصدیق کی ہے اور ذمہ داری وزارتِ تجارت پر ڈال دی ہے کہ وہ ایس او ای ایکٹ کے تحت کارروائی کرے۔ ایس ای سی پی نے اپنی رپورٹ کی ایک کاپی وزارتِ خزانہ کو بھی ارسال کی ہے۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، سابق سی ای او کو 2022ء میں ایس پی پی ایس تھری پیکج پر سی ای او مقرر کیا گیا، جس میں 5؍ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ طے تھی، لیکن انہوں نے صرف 32؍ ماہ میں 35؍ کروڑ 40؍ لاکھ روپے مختلف مراعات کی صورت میں حاصل کیے۔ ایس او ای ایکٹ 2023ء کے تحت بااختیار بورڈ نے انہیں 56.3؍ ملین روپے فکس بونس، 27.5؍ ملین روپے پرفارمنس بونس، 52؍ ملین روپے ریٹرو اسپیکٹو تنخواہ میں اضافہ، اور 46؍ ملین روپے گریجویٹی و سیورنس کی ادائیگی کی منظوری دی، حالانکہ وہ خود استعفیٰ دے کر دوسرے سرکاری ادارے میں چلے گئے تھے۔ مزید برآں، انہیں متعدد گاڑیاں ہونے کے باوجود کار مونیٹائزیشن کی مد میں بھاری رقم، چھٹیوں کی نقد ادائیگی، 5؍ کروڑ 90؍ لاکھ روپے غیر ملکی دوروں پر، اور ڈائریکٹرز فیسز بھی ادا کی گئیں۔ یہ تمام مراعات سرکاری وسائل کے غیرمعمولی اور غیرمنصفانہ استعمال کی ایک نمایاں مثال قرار دی جا رہی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید