اسلام آباد(رپورٹ:،رانا مسعود حسین ) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فل کورٹ میں 16ہوں یا تمام 24 ججز، کچھ وکلاء نے تویہ بھی کہا ہے آرٹیکل 191 اے کو سائیڈ پر رکھ کر کیس کی سماعت کی جائے ، سمجھ نہیں آتی کہ آئین کے کسی آرٹیکل کو سائیڈ پر کیسے رکھا جاسکتا ہے؟جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا ہے کہ اس حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین کی جس شق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے اے سائیڈ پر کیسے رکھا جاسکتا ہے،سینئر جج،جسٹس امین الدین خان، کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس سید حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل آٹھ رکنی آئینی بنچ نے منگل کو 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف37آئینی درخواستوں کی سماعت کی ،درخواست گزار/ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے چھ سابق صدور کے وکیل عابد زبیری نے اس مقدمہ کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالہ سے اپنے دلائل کو جاری رکھتے ہوئے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا اور موقف اختیار کیا کہ کوئی بھی فریق مقدمہ جج پر اعتراض تو کرسکتا ہے لیکن مقدمہ سننے، نہ سننے کا اختیاراسی جج کے پاس ہوتا ہے،انہوں نے ایک بار پھر 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ میں موجود ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تو جسٹس جمال مندو خیل نے کہاکہ ایک جانب تو آپ کہتے ہیں کہ اس مقدمہ کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دی جائے اور دوسری جانب کہتے ہیں کہ26ویں آئینی ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ میں موجود، صرف سولہ جج ہی کیس کی سماعت کریں، پہلے اپنی استدعا تو واضح کریں۔