• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاہدہ ابراہیمی مشرق وسطیٰ میں امن لانے میں ناکام رہا

کراچی (رفیق مانگٹ) امریکی میڈیا کے مطابق ابراہم معاہدوں نے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی راہیں کھولیں ، جنہیں ایک تاریخی لمحہ قرار دیا گیا، لیکن وہ مشرق وسطیٰ میں امن لانے میں ناکام رہے، کئی عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات قائم ہوئے ، اسرائیل فلسطین تنازع پرکوئی پیش رفت نہ ہوئی ، 2020ء کے معاہدہ ابراہیمی سے پہلے صرف مصر اور اردن اسرائیل کو تسلیم کرتے تھے ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیل ایران کیساتھ بھی تعلقات قائم کرسکتا ہے ،فلسطینی ریاست کا قیام اور مشرقی القدس اس کا دارالحکومت ہواس کے بغیر سعودیہ اور کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے۔اسرائیل مشرقی القدس کا قبضہ چھوڑنے سے انکاری ، غزہ جنگ کے بعد عرب ممالک کیلئے معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت مشکل ہوگئی ہے۔ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک بار پھر2020 کے معاہدوں کو اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا، جن کی ثالثی جیرڈ کشنر نے کی۔ معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت کے بعد اسرائیل نے بحرین، امارات اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔امارات اور اسرائیل کے درمیان 2024 میں تجارت 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ دبئی اور مراکش میں اسرائیلی سیاحوں کی آمد ہوئی جبکہ بحرین میں محدود اثرات رہے۔ معاہدوں سےاسرائیل-فلسطین تنازع پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کا جشن مناتے ہوئے کہا کہ یہ خطے کے لیے "امن اور خوشحالی" کا نیا دور شروع کر سکتی ہے۔ انہوں نے 2020 کے ابراہیمی معاہدوں کی تعریف کی، جن کی ثالثی ان کے داماد جیرڈ کشنر نے کی تھی، اور تجویز دی کہ اسرائیل ایران جیسے دشمن کے ساتھ بھی معاہدہ کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020 میں وائٹ ہاؤس میں دستخط کیے گئے ابراہم معاہدوں نے اسرائیل کو بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے میں مدد دی۔ اس سے پہلے صرف مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ دیگر عرب ممالک نے فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔
اہم خبریں سے مزید