اسلام آباد (عاصم جاوید) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے حساس ادارےکے ریٹائرڈ افسر محمد نعیم اختر کی درخواست نمٹاتے ہوئے وزارت دفاع کو قانون کے مطابق انٹیلی جنس کے خلاف درخواست کا ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔حساس ادارے کے ریٹائرڈ افسر نے ملک وحید اختر اور انعام الرحیم ایڈوکیٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار اپنی ملازمت پوری کرنے کے بعد فروری 2015 میں باقاعدہ طور پر ریٹائر ہوا۔ درخواست گزار نے اپنی سروس کے دوران نیول آفیسرز ہاؤسنگ سکیم کی رکنیت حاصل کی اور ایک ساتھ کی ادائیگی کرتا رہا۔ ہاؤسنگ ڈائریکٹوریٹ نے ریٹائرمنٹ پر درخواست گزار کو ڈی ٹائپ مکان/ فلیٹ کیلئے کنفرم کیا اور نام آفیشل روسٹر میں شامل کر لیا لیکن الاٹمنٹ کیلئے فائنل بیلٹ میں نام نہیں آیا۔ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد درخواست گزار کو REPRO بورڈ کے ذریعے ہاؤسنگ ڈائریکٹوریٹ میں کنٹریکٹ پر دوبارہ رکھ لیا گیا۔ درخواست گزار نے نیول انکریج ایکسٹینشن اسلام آباد میں نومبر 2018 تک پراجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ درخواست کے مطابق 30 جولائی 2018 کو انٹیلی جنس نے درخواست گزار کو بغیر وجہ بتائے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے حراست میں لے لیا اور تشدد بھی کیا۔ اس دوران انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے درخواست گزار کی لینڈ کروزر گاڑی اور گھر سے اے سی، ایل ای ڈی ٹی وی اور دو موبائل فون قبضہ میں لے لئے۔ درخواست گزار پر انٹیلی جنس اہلکاروں کے لکھوائے گئے بیان پر دستخط کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا اور رہائی کیلئے بھائی محمد ندیم سے 37 لاکھ 50 ہزار روپے لئے گئے۔