• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26 ویں ترمیم، وضاحت کے بغیر ہی نیا آئینی ڈھانچہ تشکیل

تحریر: سلمان اسلم بٹ 

 سینئر وکیل سپریم کورٹ ، سابق اٹارنی جنرل 

سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے مقدمہ کی کارروائی نے ایک نہایت اہم آئینی سوال کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے، یعنی آئین کے آرٹیکل 191-اے کے تحت "آئینی بنچز" (Constitutional Benches) کے قیام کا معاملہ۔ مگر اس وسیع قانونی بحث کے دوران ایک مرکزی تکنیکی مسئلے (machinery provision) کونظر انداز کر دیا گیا ہے۔آئین میں کوئی ایسا واضح طریقہ کار موجود نہیںہے جو آرٹیکل 191-اے کو موثر طور پر فعال بنائے۔آئین کا آرٹیکل 175-اے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کا ڈھانچہ متعین کرتا ہے۔ یہ شق نہایت تفصیلی اور واضح ہے۔ ذیلی شق (2) سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے کمیشن تشکیل دیتی ہے؛ ذیلی شق (5) صوبائی ہائی کورٹس کے لیے؛ ذیلی شق (6) اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے؛ ذیلی شق (7) وفاقی شرعی عدالت کے لیے؛ اورشق (18) کی ذیلی شق 2 جوڈیشل کمیشن کو ہائی کورٹس کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کے جائزہ کا اختیار دیتی ہے۔"ان دفعات کو ایک ساتھ پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئین کسی ایک، جامع ’’جوڈیشل کمیشن آف پاکستان‘‘ کا تصور نہیں دیتا، بلکہ مختلف آرٹیکلز/ سب-آرٹیکلز میں بیان کردہ مخصوص اختیارات اور افعال کے ساتھ تشکیل دیے گئے الگ الگ جوڈیشل کمیشن کا تصور دیتا ہے۔"جب ہم آرٹیکل 202-اے کی جانب دیکھتے ہیںجو آرٹیکل 191-اے کے ساتھ ہی چھبیسویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیاہے ،تو فرق واضح نظر آتا ہے۔ آرٹیکل 202-اے کے مطابق ہائی کورٹس میں آئینی بنچز کی تشکیل کا تعین اس کمیشن کے ذریعے کیا جائے گا جو آرٹیکل 175-اے کی ذیلی شق (5) کے تحت قائم ہے۔ اس طرح ایک باقاعدہ آئینی ربط قائم ہو جاتا ہے: یعنی ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کا ذمہ دار جوڈیشل کمیشن ہی آئینی بنچز کے قیام کا مجاز ادارہ ہے۔ یوں یہ شق واضح آئینی بنیاد رکھتی ہے۔اس کے برعکس آرٹیکل 191-اے، جو سپریم کورٹ کے آئینی بنچز سے متعلق ہے، کہتا ہے کہ یہ بنچز ان ججوں پر مشتمل ہوں گے جنہیں "جوڈیشل کمیشن آف پاکستان" نامزد اور مقرر کرے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عملی طور پر آئین میں ایسا کوئی واحد، جامع ادارہ موجود ہی نہیں جسے "جوڈیشل کمیشن آف پاکستان" کہا جا سکے۔ آرٹیکل 175-اے کی ذیلی شق (1) میں اگرچہ عمومی طور پر ایک جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا ذکر ہے، مگر اس کی تشکیل مکمل نہیں اور اسے ذیلی شقوں (2)، (5)، (6) اور (7) کے ساتھ ملا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ فی الحال سپریم کورٹ کے آئینی بنچزجوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہی بنائے جا رہے ہیں جو آرٹیکل 175-اے کی ذیلی شق (2) کے تحت قائم ہے، تاہم یہ کمیشن صرف سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری اور ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کے جائزہ تک محدود ہے۔جسے ایک مستقل ادارہ تصور نہیں کیا جا سکتا ہے جو آئینی بنچز تشکیل دینے کا مجاز ہو؟۔ متن کی اس عدم مطابقت سے وہ آئینی ابہام پیدا ہواہے ؟جسے "machinery gap" کہا جا سکتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 202-اے جہاں ایک واضح آئینی طریقہ کار سے منسلک ہے، وہاں آرٹیکل 191-اے ایک ایسے ادارہ کے حوالے سے بات کرتا ہے جو آئینی طور پر موجود ہی نہیں ہے ۔ آئینی تعبیرات میں ایسی شقیں جو کسی حق یا اختیار کا ذکر تو کرتی ہیں مگر اس کے نفاذ کا طریقہ نہیں بتاتیں، انہیں "non-self-executing" کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ*مبشر حسن کیس* میں تسلیم کیا گیا ہے کہ، ایسی شقیں اس وقت تک غیر فعال رہتی ہیں جب تک ان کے نفاذ کے لیے کوئی قانون سازی، ضابطہ، یا عدالتی تعبیر سامنے نہ آ جائے۔آرٹیکل 175-اے کے حوالہ سے قانون سازوں کا ارادہ واضح ہے ، عدالتی تقرریاں اور متعلقہ امور کو غیرمرکزی (decentralized) بنانا، تاکہ ہر عدالت کے لیے الگ کمیشن ہو۔تاہم آرٹیکل 191اے ، ایک واحد "جوڈیشل کمیشن آف پاکستان" کا وجود فرض کرتا ہے جو سپریم کورٹ کے لیے بنچوں کی نامزدگی اور تعین کرنے کے قابل ہو، حالانکہ آئینی اسکیم میں ایسا کوئی جامع ادارہ موجود نہیں ہے۔جب تک پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کسی واضح تعبیر کے ذریعے یہ وضاحت نہیں کرتی ہیں کہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کس طریقہ کار کے تحت بنائے جائیں گے، آرٹیکل 191-اے متن کی حد تک تودرست رہے گا لیکن عملی طور پر غیر یقینی ہوگا۔دوسری جانب آرٹیکل 202-اے مضبوط آئینی بنیاد رکھتا ہے کیونکہ یہ ایک موجودہ کمیشن،آرٹیکل 175-اے کی ذیلی شق 5) )سے جڑا ہوا ہے۔ یہ فرق اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ترمیم کے مسودہ میں ایک تکنیکی خلاء رہ گیا ہے جسے پارلیمنٹ کو بالآخر دور کرنا ہوگا۔مختصراً، چھبیسویں آئینی ترمیم نے اپنے طریقہ کار کی مکمل وضاحت کیے بغیر ہی ایک نیا آئینی ڈھانچہ تشکیل دے دیا ہے۔آرٹیکل 191،اے ، جیسا کہ موجودہ الفاظ میں کہا گیا ہے، ایک ایسے جوڈیشل کمیشن کا قیاس کرتا ہے جسے آئین باضابطہ طور پر تشکیل نہیں دیتا۔ جب تک اس خلا ء کو پر نہیں کیا جاتا، اس آرٹیکل کے ایک نفیس کاغذ ی خیال بنے رہنے کا خطرہ ہے -ایک ایسا آئینی نظریہ جو ابھی اپنے عملی وجود کا منتظر ہے۔

اہم خبریں سے مزید