اسلام آباد (مہتاب حیدر) تجارتی ڈیٹا میں تضاد؛ PBS نے FBR اور PSW سے ڈیٹا وصول کرنا شروع کر دیا، مفاہمت شدہ تجارتی ڈیٹا اب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن او اور آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق اُن غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بعد جن کے نتیجے میں تجارتی اعداد و شمار میں وسیع تضادات پیدا ہوئے تھے، پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس نے اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے پاکستان ریونیو اتھارٹی لمیٹڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان سنگل ونڈو کے ذریعے بھی تجارتی ڈیٹا وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب اس مفاہمت شدہ ڈیٹا کو پچھلے چند سالوں کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ بھی شیئر کرنا ہوگا۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ پی بی ایس نے پی آر اے ایل اور پی ایس ڈبلیو دونوں سے ڈیٹا وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے جائزہ وفد کو اپنی آخری اسلام آباد آمد (28ستمبر سے 8 اکتوبر 2025) کے دوران بریفنگ دی، جس میں انہوں نے تجارتی اعداد و شمار میں پائے جانے والے فرق کے مسئلے کو اٹھایا، جو مالی سال 2024-25 کے دوران بڑھ کر 6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ آئی ایم ایف کو بریفنگ دی گئی کہ پاکستان دوسرے ممالک کی طرح اپنے بین الاقوامی تجارتی ڈیٹا کو انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کی زیر نگرانی چلنے والی ٹریڈ میپ سائٹ پر رپورٹ کرتا ہے۔ آئی ٹی سی کو یہ رپورٹنگ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے ذریعے کی جاتی ہے، جو کہ پاکستان کسٹمز سے حاصل شدہ ڈیٹا پر انحصار کرتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران، آئی ٹی سی (ITC) پر پاکستان کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی درآمدات اور تجارتی شراکت داروں کی جانب سے پاکستان کو رپورٹ کی جانے والی برآمدات کے درمیان فرق میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ فرق خاص طور پر چین کی جانب سے رپورٹ کیے گئے برآمدی ڈیٹا کے ساتھ بہت زیادہ تھا، جو اوسطاً سالانہ 4.5 ارب امریکی ڈالر تھا۔ آئی ٹی سی ٹریڈ میپ پر یہ فرق بڑے پیمانے پر پاکستان میں درآمدات میں کم قیمت ظاہر کرنے اور اس کے نتیجے میں محصولات کے رساؤ کی وجہ سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ حکومت کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وزیر اعظم کی ہدایات پر، ایف بی آر نے اپریل 2025 میں تجارتی ڈیٹا میں، خاص طور پر چین سے پاکستان کی درآمدات میں، تضادات کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے کسٹمز اور پی بی ایس کے ڈیٹا کی چھان بین کے بعد یہ معلوم کیا کہ پی بی ایس پاکستان کسٹمز کے وی باک (WeBOC) سسٹم سے تجارتی ڈیٹا نکالنے کے لیے ایک پروگرام شدہ استفسار پر انحصار کرتا تھا