لاہور (آصف محمود بٹ )ڈی جی پاکستان سول سروسز اکیڈمی (سی ایس اے)فرحان عزیز خواجہ نے کہا ہے کہ انتہاپسندی کو صرف لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھنا خطرناک سادگی ہے، کیونکہ عدم برداشت اکثر وہاں جنم لیتی ہے جہاں انصاف، مواقع اور سماجی تحفظ منصفانہ طور پر دستیاب نہ ہوں۔ طبقاتی تفاخر، اسٹیٹس کانشیئس (status conscious) اور سماجی درجہ بندی کے نفسیاتی اثرات عدم برداشت کی بنیادی وجہ، تعصبات سے پاک سوچ سکھانا ریاستی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے، ’’نیشنل اِنٹر فیتھ ہارمنی کمیشن‘‘ تشکیل دیا جائے جو پالیسی پر عمل درآمد، بین الوزارتی رابطہ کاری اور شفاف مانیٹرنگ کو یقینی بنائے۔سی ایس اے کے انٹر فیتھ ہارمنی سوسائٹی اور ایتھیکل لیڈرشپ سوسائٹی کے 25 رکنی وفد نے منہاج یونیورسٹی لاہور میں منعقدہ آٹھویں’’ بین الاقوامی کانفرنس برائے مذاہبِ عالم‘‘ میں شرکت کی، جہاں ’’قومی حکمتِ عملی برائے مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی 2025‘‘ پر غور، نظرِ ثانی اور عملی فریم ورک کی تیاری پر سیشنز ہوئے۔ کانفرنس کی سرپرستی ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی جبکہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد، اسکول آف ریلیجن اینڈ فلاسفی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ہرمن روبا، اور پروفیسر ڈاکٹر شانتی کمار ہیتھارچی نے کی، جبکہ مختلف مذاہب کے ممتاز اسکالرز اور قائدین شری کرشن شرما (چیئرمین پاکستان ہندو مندر مینجمنٹ کمیٹی)، بشپ سیموئل رابرٹ آزاریہ (ڈائریکٹر، کرسچن اسٹڈی سینٹر راولپنڈی)، ڈاکٹر سید معظم علی ہاشمی (ایڈجنکٹ فیکلٹی، قائداعظم یونیورسٹی)، اور امجد محمد سلیم (نان ریزیڈنٹ فیلو، سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ ہیومینیٹیرین اسٹڈیز، دوحہ) نے شرکت کی۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل پاکستان سول سروسز اکیڈمی فرحان عزیز خواجہ نے کانفرنس سے خطاب میں مزید کہا کہ ایسے قومی سطح کے پالیسی مکالمے نوجوان سول سرونٹس کو تنوع، سماجی شمولیت اور بین المذاہب احترام کی وہ عملی تفہیم دیتے ہیں جو جدید طرزِ حکمرانی کے لیے ناگزیر ہے۔ ۔فرحان عزیز خواجہ نے واضح کیا کہ پاکستان سول سروسز اکیڈمی کی تربیت محض تکنیکی نہیں بلکہ اخلاقی اور نفسیاتی پہلوؤں تک جاتی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کا مقصد مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت نوجوانوں کو میرٹ پر سی ایس ایس میں کامیابی کے لیے علمی، رہنمائی اور اعتماد کی وہ مدد دینا ہے ۔ فرحان عزیز خواجہ نے کہا یہ مشقیں ایک عام منتظم کو صرف حکم دینے والا افسر نہیں بلکہ پل بنانے والا انسان بناتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں موقع، عدل اور شمولیت چھین لی جائے وہاں عدم رواداری جنم لیتی ہے؛ اور جہاں ریاست تعلیم، ہمدردی اور مساوی حقوق میں سرمایہ کاری کرتی ہے وہاں امن کی جڑ مضبوط ہوتی ہے۔ڈی جی سی ایس اے نے طبقاتی تفاخر، اسٹیٹس کونشیئس اور سماجی درجہ بندی کے نفسیاتی اثرات کو عدم برداشت کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے پبلک آفس ہولڈرز کو تعصبات سے پاک سوچ سکھانا ریاستی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا دہشت گردی اور خودکش حملوں کے خلاف تاریخی فتویٰ، اور بین المذاہب مکالمے کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد، اسلام کے حقیقی پیغام یعنی رحمت، عدل اور انسانی وقار کو ازسرِ نو اجاگر کرتی ہے۔ڈی جی سی ایس اے نے یہ تجویز بھی دی کہ قومی سطح پر ’’نیشنل اِنٹر فیتھ ہارمنی کمیشن‘‘ تشکیل دیا جائے، جو پالیسی پر عمل درآمد، بین الوزارتی رابطہ کاری اور شفاف مانیٹرنگ کو یقینی بنائے۔ سی ایس اے کے تعاون کے عزم کو دہراتے ہوئے فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ پاکستان سول سروسز اکیڈمی میں ہم ایسے ماڈیولز تیار کر رہے ہیں جو شہری تعلیم، امن سازی اور قائدانہ کردار کو ایک ساتھ جوڑیں ۔ڈی جی سول سروسز اکیڈمی نے قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی مؤقف کو یاد دلایا جس میں بابائے قوم نے کہا تھا کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ فرحان عزیز خواجہ نے کہا کہ قائد کا یہی وژن آج بھی سول سروسز اکیڈمی کے لیے رہنما اصول ہے۔فرحان عزیز خواجہ نے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور اُن کی ٹیم کو اس امر پر داد دی کہ وہ مکالمے کو محض تقریر نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے عملی اصلاحات کی سمت لے جاتے ہیں۔ ڈی جی سی ایس اے نے کہا کہ پرامن پاکستان وہ ہے جہاں ہر شہری اس کے عقیدے، طبقے یا شناخت سے قطع نظر باوقار، مساوی اور باامید زندگی گزار سکے۔