اسلام آباد :(انصار عباسی)…خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے دورِ حکومت میں علی امین گنڈاپور نے 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان، پارٹی رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کیخلاف صوبے میں درج تقریباً تمام مقدمات نمٹا دیے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات وقاص اکرم شیخ کے مطابق، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کارکنوں کیخلاف 9؍ مئی 2023ء کے احتجاج کے سلسلے میں 319؍ کیسز درج کیے گئے تھے۔
ان میں سے 268؍ کیسز پولیس اور استغاثہ کی مدد سے قانوناً عدالتی تقاضے پورے کرتے ہوئے انجام کو پہنچائے گئے، اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ یہ کیس ’’بلیک میل کرنے کی چال‘‘ کے طور پر دوبارہ نہ کھولے جا سکیں۔
وقاص اکرم شیخ کے مطابق، سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے کیسز قانونی تقاضوں کے ذریعے نمٹا کر گنڈا پور نے شاندار کام کیا اور پی ٹی آئی کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 51؍ کیسز ایسے ہیں جو اب تک پراسیس میں ہیں کیونکہ ملزمان غیر حاضر ہیں، تاہم یہ بھی جلد نمٹا دیے جائیں گے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج 29؍ کیسز میں سے 23؍ کو نمٹایا جاچکا ہے، جبکہ 6؍ زیر التوا ہیں۔ وقاص اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کے اوائل میں اپنے استعفے سے قبل گنڈا پور کی کابینہ نے 9؍ مئی سے جڑے تمام باقی ماندہ کیسز واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا، اس اقدام کی تصدیق ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل نے بھی حال ہی میں کی ہے۔
اے جی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ صوبائی کابینہ نے شواہد اور تحقیقات دیکھتے ہوئے 9؍ مئی کے ایسے کیسز سے دستبردار ہونے کی منظوری دی ہے جن میں خامیاں، کسی طرح کی کمی تھی یا پھر وہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ کابینہ کا فیصلہ انتظامی وسائل اور وقت کو مزید برباد ہونے سے بچانے کیلئے تھا۔ یاد دہانی کیلئے یہاں بتاتے چلیں کہ پیراملٹری رینجرز کی جانب سے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9؍ مئی 2023ء کو ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
خیبر پختونخوا میں ہونے والے مظاہروں میں پشاور، مردان، مہمند اور خیبر میں مظاہرین نے مبینہ طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
نتیجتاً، پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا، پرچے کاٹے گئے اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے، جبکہ 100؍ سے زائد پارٹی کارکنوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کیلئے فوجی حکام کے حوالے کیا گیا۔