• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ امریکی خارجہ پالیسی کا رخ تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں، امریکی جریدہ فوربز

کراچی (رفیق مانگٹ) امریکی جریدے فوربز کے مطابق صدر ٹرمپ امریکی خارجہ پالیسی کا رخ تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں۔ ان کا ہدف چین کے اتحادیوں کو بیجنگ سے دور کرنا ہے‘ ماسکو نے یوکرین میں جنگ بندی کی اپیل مسترد کر دی‘ اب وائٹ ہاؤس کی توجہ اسلام آباد پر مرکوز ہے۔ 

بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تنازعات کے باوجود، ٹرمپ نے جوہری طاقت رکھنے والے مسلم ملک سے تعلقات گہرے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے پر بات چیت آخری مراحل میں ہے، جس میں جدید "ایئر ٹو ایئر" میزائل اور قدرتی وسائل کی ترقی پر کم ٹیرف کے بدلے تعاون شامل ہے۔ 

ٹرمپ انتظامیہ اس شراکت کو ایک عملی تجارتی معاہدہ کے طور پر دیکھ رہی ہے، لیکن بھارت کے لیے یہ تین دہائیوں پر محیط امریکی بھارتی اسٹریٹجک تعلقات پر براہ راست ضرب ہے۔

اسلام آباد نے افزودہ نایاب زمینی عناصر اور اہم معدنیات کی پہلی کھیپ امریکہ بھیجی۔ یہ 500 ملین ڈالر کی شراکت داری کا آغاز ہے، جس میں ریفائننگ اور پروسیسنگ شامل ہے۔ 

فوربز کے مطابق ٹرمپ کی پاکستان نواز پالیسی ملک کی اندرونی کمزوریوں کو نظرانداز کر رہی ہے۔ معیشت قرضوں اور آئی ایم ایف امداد پر انحصار کرتی ہے‘ فی کس آمدنی کم اور سیاسی نظام غیر مستحکم ہے۔ مذہبی جماعتوں کا عروج ہے۔

افغان سرحد پر جھڑپیں، خصوصاً پاکستانی اور افغان طالبان فورسز کے درمیان، ملک کی سلامتی کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت اور دفاع میں چین کا کردار گہرا ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری میں 65 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، پاکستان کے 81 فیصد درآمدی ہتھیار جن میں لڑاکا جیٹ، میزائل اور ریڈار شامل ہیں چین سے حاصل ہوتے ہیں۔ امریکا اور بھارت کے مستحکم تعلقات مودی کی روس سے تیل خریداری اور پاک بھارت جنگ پر ٹرمپ کی ثالثی کے دعوے کی تردید پر بگڑ گئے۔

امریکا نے بھارتی اشیا پر بھاری ٹیرف لگا دیے اور ویزا فیس بڑھا دی‘ تجارتی تنازع نے دفاعی و سفارتی تعاون کو بھی متاثر کیا۔ امریکی بھارتی شراکت داری گزشتہ تین دہائیوں میں تجارت، ٹیکنالوجی اور دفاع کے شعبوں میں مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ 

ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کے مطابق اب سوال یہ ہے کہ بھارت کس حد تک پاک امریکا قربت کو برداشت کر سکتا ہے بغیر اس کے کہ دہلی واشنگٹن تعلقات متاثر ہوں۔

ایریل کوہن کے مطابق‘بھارت امریکی اقتصادی و جغرافیائی مفادات کے لیے کہیں زیادہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ دونوں سے تعاون چاہتا ہے۔ بھارت سے ریگولیٹری اصلاحات، پاکستان سے معدنیات۔ جنوبی ایشیا کا امن امریکی توازن پر منحصر ہے۔

اہم خبریں سے مزید