• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متضاد فلسفوں کی حامل یعنی جماعت اسلامی، پی پی پی اور خود حکومت کے ادارے ، نظام اور نصاب تعلیم کو قطعاً بدلنے پہ زور دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے اسکولوں کے نصاب میں بھی فرسٹ ایئر سے لیکر دیگر بیماریوں کےممکنہ علاج اور صحت وصفائی کے موضوعات کیلئے تجرباتی سیشن کا ایک عملی گھنٹہ قائم کیا جائے ، جس میں شہریت اور بچوں کے حقوق کے بارے میں بھی باقاعدہ انسپکٹر عملی نمونوں کے ذریعے بچوں کو اپنے آپ تیار ہونے، برش کرنے اور ناشتے کے عوامل کو سمجھا یاجائے۔ یوں تو لاڈ پیار میں بہت سے بچے ناشتہ کیے بغیر اسکول جاتے ہیں کہ وہ دیر سے سوکر اٹھتے، ماں انکو جاتے ہوئے ایک ڈبے میں کھانا پکڑا دیتی ہے۔ پھر وہ یہ کھاتے ہیں کہ یہ دوستوں کو کھلا کر خود باہر کے کھوکھے کی چاٹ کھاکر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کی چوری، پیٹ خرابی کی صورت بن بتائے ، اماں کو خبر کرجاتی ہے۔

اس طرح کھیلوں کیلئے اب تو باقاعدہ ٹیچر رکھے جاتے ہیں۔ مگر باقاعدگی سے رویے، لباس اور خوراک کی بھی عملی تربیت شروع دن سے ہی ہونی چاہیے ۔ امریکہ میں جن بچوں نے فلور ڈانسنگ سیکھنی ہےانہیںپہلے چھ ماہ میںپیروں اور ٹانگوں کی خاص پوزیشن کو سمجھایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح موسیقی میں آواز کی تربیت کم ازکم چھ ماہ تک جاری رکھی جاتی ہے۔ انڈین اور پاکستانی کلاسیکل ڈانس کیلئے چھ ماہ تک فٹ ورک سکھایا جاتا ہے، تبھی تو ڈانسر یہ سیکھ پاتا ہے کہ ڈانس کی انتہا پہ پیروں کی نہیں صرف گھنگھرووں کی آوازآنی چاہیے۔ مجھے یاد ہے مہاراج اپنے شاگردوں خاص کرناہید صدیقی اور فصیح الرحمان کو تین گھنٹوں کا مسلسل فٹ ورک کرواتے تھے۔ اسی طرح سلامت علی خاں بچوں کو صبح سویرے آدھے گھنٹے الاپ سکھاتے تھے۔ بے استادے جو لوگ ہوں و ہ ان باریکیوں کو نہیں سمجھتے۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹی وی پر جانے کیلئے پہلے تلفظ کی تربیت تمام غزل سنگر کی ہوتی ہے۔یہ تمام چھوٹی چھوٹی باریکیاں کورس کا حصہ بنانی چاہئیں۔

میں خاص طور پرکیوں اس تفصیل میں جارہی ہوںکہ ابھی نئے سال کے داخلوں میں، پشاور یونیورسٹی میں9ڈیپارٹمنٹ بند کردئیے گئے ہیں کہ وہاں داخلے میں کوئی نوجوان دلچسپی نہیں لے رہا۔ جیوگرافی، جیولوجی، سوشل اینتھرو پولوجی ، فیملی اسٹیڈیز، ہوم اکنامکس، فلسفے اور تاریخ کے بجائے نوجوان دلچسپی لے رہے ہیں فارمیسی، کمپیوٹر اس سے ملحقہ تجارت ، پراجیکٹ بنانےمیں۔نفسیاتی امراض کو جسم کے علاوہ بھی سمجھناآج کے دور کی ضرورت ہے۔ نوجوان بچوں کی آپس میں اور والدین سے گفتگو بھی آج کی ضرورت اس لئےہے کہ ہمارے گلی محلوں میں بچوں کو گلیوں میں کھیلنے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ آج کل کے بچوںکی پہلی کلاس ہی میں کھیل اور کھانے کی تربیت لازمی ہے۔

یہ تو ہوئیں اسکول اور کالج میں دلچسپی کی باتیں اب تو اکنامکس کی چھ جہات ہیں۔ اس لئے نفسیات اور کمپیوٹر ہیلتھ سائنسز کے بھی کئی پرت ہوگئےہیں۔ اب چونکہ عمریں بھی پہلے کے مقابلے میں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔ اس لئے ذہنی بالیدگی، تنہائی ہم عصر دوستوں کی تلاش کبھی میاں کا اکیلے رہ جانا اور گھر کی دیکھ بھال کون کرے ،دنیا کے فلاحی ملکوں میں توباقاعدہ ایک شعبہ مع اسٹاف اور فنڈز کے ہوتا ہے۔ وہاں محلے /وارڈ کے لحاظ سے اس علاقے کے بزرگوں کا ڈیٹا ان کی، صحت اور غذا کی ضروریات اور سب سے اہم تنہائی دور کرنے کے ماحول کو بنانا، ورنہ ڈیمنشیا اور مخبوط الحواسی توکسی کے قابو میں نہیں آئی۔ ہم یعنی پاکستان بھی کہہ رہا ہے کہ کچھ نئے ہوٹل اور تعمیرات کہ اگلے سال عالمی کانفرنس کی ذمہ داری پڑی توکون اٹھائےگا۔ اس پر ایک سوال تو ہمارے وزیر سیالکوٹ نے دیا ہے کہ میرے علاقے کا پٹواری خود کینیڈا میں رہتا ہے اور دنیا بھر میں اس کے تجارتی مراکز ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بہت بڑے لوگوں کے کام آتا اور ان کی ضرورت کے مطابق انکی ڈیمانڈ بھی پوری کرتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ میں وزیر ہوں۔میںاپنی اوقات اور اسکی پہنچ کو جانتا ہوں۔ یہیں پہ مقامی حکومتوں میں نمائندگی کا سوال بھی سامنے آجاتا ہے کہ پٹواری کے علاوہ، زمین کے مالکوں پر اور بہت حاکم ہونگے جو اپنی مرضی کے لوگ مقامی حکومتوں میں منتخب کرواتے ہیں مقامی کونسلوں کا بجٹ بھی آپس میں تقسیم کرلیاجاتا ہے۔ عوام جائیں بھاڑ میں۔

اب آپ کی سمجھ میں آیا ہوگا کہ میں نے پورے نظام کی تبدیلی کی بات کیوں چھیڑی ہے۔ اب تو تعلیم بالغاں کا طریقہ اور نصاب بھی، نفسیات کے ساتھ بدلنا ہے۔ اس وقت کشمیر میں بندر بانٹ دیکھ کر، نظام کی تبدیلی اور شطرنج کا کھیل بہت ہوچکا۔ یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو رہناہے تو نظام بدلنے کے سوا چارہ کوئی نہیں ہے۔ قدامت پرستوں کو اپنے جزیرے میں رہنے دو۔ اب تو کسی موت پر بھی انکی ضرورت اسلئے نہیں کہ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ ہوکر یہ جزئیات بھی سنبھال لیتے ہیں۔

تازہ ترین