• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دفعہ 144 کا نفاذ، زیادہ سخت سزاؤں والے قوانین سے پیچیدگیوں کا خدشہ، ماہرین

لاہور (رپورٹ آصف محمود بٹ ) پنجاب حکومت کی جانب سے صوبہ بھر میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے نفاذ نے قانونی و انتظامی حلقوں میں بحث چھیڑ دی۔ قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ دفعہ 144کے نفاذ کے نوٹیفکیشن میں مذکورہ خصوصی قوانین کو شامل کرنا جو پہلے ہی زیادہ سخت سزاؤں کے ساتھ موجود ہیں سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں ۔ایک سینئر صوبائی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جہاں خصوصی قوانین سخت سزائیں رکھتے ہیں وہاں 144 کے تحت کارروائی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والوں کو ”نسبتاً نرم راستہ“ مل سکتا ہے۔ ان کے مطابق نفاذ کی ترجیح خصوصی قوانین ہوں، 144 صرف واضح اور وقتی ہنگامی صورتحال کے لئے رکھا جائے، اور سنگین افعال کے لئے ”نرم راستے“ پیدا نہ کئے جائیں۔سینئر وکلاءحسن رضا ، ادریس اشرف نے کہا کہ مطلق پابندی کی بجائے روٹس، اوقات اور ہجوم کی حد جیسی شرائط وضع کرنا ہوں گی، اسلحہ سے متعلق مجوزہ پابندی پر قانونی ماہرین نے توجہ دلائی کہ پاکستان آرمز آرڈیننس 1965ء (سیکشن 11-بی) پہلے ہی اسلحہ رکھنے، اٹھانے اور نمائش کے قواعد طے کرتا ہے؛ اس لئے دفعہ 144کے متوازی حکم سے تعزیری ابہام بڑھے گا۔ بینکوں، بازاروں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں تعینات لائسنس یافتہ نجی سیکیورٹی، کیش اِن ٹرانزٹ ٹیموں اور اہم تنصیبات کی حفاظت کے لئے تحریری، قابلِ تصدیق استثنا ناگزیر قرار دیا گیا۔
اہم خبریں سے مزید