• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے ہی نومبر نے جھانکا، ثقافتی سرگرمیوں کو ایسے پر لگے ہیں کہ ہر شہر میں جس قدر ممکن ہوادبی فیسٹیول کیا جارہا ہے، بی بی مریم نے سارے دیہات تک کو اجازت دی ہے کہ چاہے گھوڑوں، گدھوں یا انسانوں کی ریس کے مقابلے کیے جائیں۔ اچھا یہ لگ رہا ہےکہ ہر دیہات اور قصبے کو اپنی پرانی رسمیں، پرانے ساز اور ڈھول یاد آرہے ہیں۔ یہ سب دیکھتے ہوئے لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھ کر شکر خدا کا کرتی ہوں ک آئے روز کے دہشت گردوں کے حملوں کے مقابلے میں کچھ کچھ عوامی طرز پر لوگ کھل رہے ہیں۔ البتہ اسکول اور کالجوں میں فیشن شو یا پھر میک اپ شو کو تحسینی نظروں سے مت دیکھیں کہ ہم لوگ تو سادگی اور فضولیات سے رہائی چاہتے ہیں۔

یہ الگ بات اور فخریہ بیان کررہی ہوں کہ کراچی میں احمد شاہ کی زیر قیادت اور وزیراعلیٰ کی فنڈز فراہم کرنے کی تحسین کو5ہفتوں تک عالمی کلچر کی تقریبات ہورہی ہیں، جس میں152ملکوں کے وفود آئے ہیں۔ انکے قیام، طعام اور اعزازیہ پہ جو اخراجات کریں گے ان کو وزارت کلچر کھلے دل کے ساتھ احمد شاہ کی تحویل میں دیکر سرخرو ہورہی ہے۔

آگے سنجیدہ تحریر کی طرف متوجہ ہونے کیلئے، پہلے خوشی یہ ہے کہ کراچی میں سرکاری فنڈز خرچ کرکے اور اسلام آباد میں خاندانی سطح پر رقم لگاکر جناب انور مسعود کی90ویں سالگرہ انکے بچوں نے 150لوگوں کو شریک تقریب کرکے، ان پر فلم بھی دکھائی، ادیبوں کی گفتگو اور دعائوں کے تحفے اور پھولوں کے ڈھیروں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بہار کو راستے ہی میں انور مسعود کے ساتوں بچوں اور ان کے خاندان نے محبت کی وہ لہر دکھائی جبکہ آج کل کی اکثراولاد تو اپنے والدین کے فوت ہونے کے انتظار میں حوصلہ کرکے ان کو قتل کرکے یا وصیت لکھواکر جائیداد پر قبضہ کرلیتی ہے۔ انور مسعود آپ کی اولاد کی تربیت میں آپ کی بیگم صدیقہ کی تربیت بھی ظاہر ہورہی ہے۔ وہ قبر میں بھی بچوں کے اس اجتماع پر فخر کررہی ہوں گی۔

انور مسعود پنجابی کا وہ شاعر ہے جس کے شعر اور نظمیں زمین پر بیٹھا موچی، تنور پر روٹی لگانے والا اور پیسوں والا شخص بھی اپنے ٹیلی فون پر ڈائل ٹون بناتا ہے کہ ’’آج کی پکایئے‘‘

اور اب پریشان کن وہ آئینی ترمیم جسکی افواہ تو کئی ہفتوں سے خوف پھیلا رہی تھی۔ 27ویں ترمیم کا آنا، جبکہ26ترمیم درمیان ہی میں پڑی ہے، اسے پھلانگ کر27ویں ترمیم آنے والے کل کو پیش کردی جائے گی، کہنے کو یہ ترمیم ہے مگر اس پر عملدرآمد سے بہت سے شعبے زندگی پالینے اور بہت سے فرسودگی کا شکار ہوں گے، مگر یہ ترمیم جس کو نام تو27دیا گیا ہے۔ وہ18ویں ترمیم سے لیکر بہت سے شعبوں پر چھاپہ مار رہی ہے۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ جب سے تعلیم اور آبادی کنٹرول کے شعبے صوبوں کو بخش دیے گئے تھے۔ واپس مرکز کی جانب آرہے ہیں کہ شاید ایسی کوشش سے فیل ہونے والے بچوں کی تعداد میں کمی، خاص طور پر آبادی پر قابو پایا جاسکے۔ بیچ بیچ میں یہ نام دانش اسکول کیوں آتا ہے، کیا شریف خاندان اپنے دوسرے منصوبوں کی طرح ان اسکولوں کو بھی اپنے بڑھاپے کا سہارا بنا رہے ہے۔ اصل میں تو گورنر جیلانی نے ہی کام شروع کیا تھا اور ایچی سن کالج کے مقابلے پہ پاکستانی اسکول سسٹم کو فروغ دینے کی کوشش بہت مستحسن ہونے کے ساتھ باقی بے چارے اسکولوں سے الگ رکھنے کا جواز سمجھ میں نہیں آیا۔ اب27ویں ترمیم سےفوج اور عدلیہ کی کتر بیونت بھی کی جارہی ہے۔ سب سے مشکل اور غیر مقبول عہدہ الیکشن کمشنر کا رہا ہے۔ اس کی نئی شکل بھی جھانکتی نظر آرہی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ صوبے تعلیم اور آبادی کنٹرول کے شعبوںکے ہاتھ سے جانے پہ خوش ہوں گے کہ صوبے کہتے رہتے تھے کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں مگر فنڈز کے علاوہ عقل بھی چاہیے ہوتی ہے۔ صوبوں میں تو علاقے کا پٹواری اسکول کو شادی ہال بنا دیتا تھا یا پھر بھینسوں کا باڑہ، اسکولوں اور یونیورسٹیوں دونوں کو نئے نصاب، نئے طریق تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ اس سےیہ جو رٹا سسٹم چلتا رہا ہے یا امتحان میں نقل کرنے کی روایت شاید ختم ہوجائے۔

اچھا اب میں قوم اور خواتین کے اٹھائے ہوئے اعتراض وہ بھی ترمیم کے لاگو ہونے کے بعدذکر کروں گی۔ ایک اعتراض یہ ہے کہ صوبوں کے اختیارات کم ہوجائیں گے اور انصاف ملنے کے طریقے اگر غریبوں اور فیملی کورٹس کے ذریعہ خاندانی جائیداد سے لے کر ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل جن کو لوکل گورنمنٹ کی سطح پر حل ہونا چاہیے، ایک غیر ضروری بات مگر عاشق کو محبوبہ کے پیروں پر گر جانے والے ڈھابوں کو بھی کوئی لگام دے، یاد دلائیںبشریٰ بی بی کو کہ ان کے وظیفے الٹے پڑنے کے بعد وہ کیا سوچ رہی ہیں۔

تازہ ترین