اینگزائٹی ڈس آرڈر، امریکا میں ذہنی امراض میں سے سب سے عام قسم ہے، جس سے 4کروڑ بالغ امریکی افراد متاثر ہیں۔ اینگزائٹی ڈس آرڈر کے حوالے سے بِرگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل کے ڈائریکٹر آف سائکالوجی اور کلینیکل سائکالوجسٹ نتالی ڈاٹیلو کہتی ہیں، ’’اگر ہم نفسیاتی نقطہ نظر سے اینگزائٹی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ ایک ہونے والی صورتِ حال یا واقعے کی ’مِس کیلکیولیشن‘ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم اینگزائٹی اس وقت محسوس کرتے ہیں، جب ہم اندازوں سے زیادہ کوئی بُری بات کے واقع ہونے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو حد سے کم درجے کا سمجھ بیٹھتے ہیں‘‘۔
لائسنس یافتہ امریکی سوشل ورکر اور ’لائف اِز گُڈ کِڈز فاؤنڈیشن‘ کے بانی اِسٹیو گراس خوف اور اینگزائٹی کو غیرفطری عمل قرار نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انسانوں کی فطرت میں ایک ’منفی تعصب‘ پایا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ڈرانے والی اور خوف دینے والی معلومات کو مثبت اور عزم کو پختہ کرنے والی معلومات کے مقابلے میں زیادہ توجہ دیتا ہے۔ یہ انسانوں کے اس قدیم دور میں بھی پائی جاتی تھی، جب انھیں زندہ رہنے کے لیے غذا، پانی اور چھت کی تلاش کرنا پڑتی تھی۔ ان چیزوں کا مستقل خوف انھیں ’فائٹ-آر-فلائٹ موڈ‘ میں رکھتا تھا۔
’’جب آپ کا جسم، ایڈرینالین (دل کی دھڑکن تیز کرنے والا مواد) زیادہ بناتا ہے تو اینگزائٹی اس کا نفسیاتی جواب ہوتا ہےاور یہ مادہ ہر وقت خوف کا پتہ لگانے (تھِریٹ ڈِٹیکشن) کے کام پر معمور ہوجاتا ہے۔ ایک طرف اینگزائٹی جہاں کسی بھی طرح کے خطرے کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، جسم آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔
دونوں ماہرین کا ماننا ہے کہ، پُراُمیدی(آپٹی مِزم) کو پروان چڑھا کر اینگزائٹی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
نتالی ڈاٹیلو کہتی ہیں، ’’میرا خیال ہے کہ پرامیدی، مثبت سوچ، اچھی توقع رکھنے، بامقصد رویہ اپنانے اور پر اعتمادی کا امتزاج ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ’آدھا گلاس بھرا ہوا ہے‘ والی سوچ کو ہم پرامیدی کہا جائے۔
اس سے زیادہ پرامیدی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ زندگی میں جو کچھ پیش آرہا ہے آپ اسے کس طرح بیان کرتے ہیں، خصوصی وہ چیزیں جو آپ کی توقعات کے مطابق نہیں ہوتیں اور آپ آنے والی زندگی کے بارے میں کیا توقعات رکھتے ہیں‘‘۔
اس صورتِ حال کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ، جب زندگی میں چیزیں آپ کی توقعات کے مطابق وقوع پذیر نہ ہورہی ہوں، آپ انھیں اپنے تاریک مستقبل سے تشبیہہ دینے کے بجائے یہ تصور کریں کہ یہ ایک عارضی حادثہ ہے، جو گزر جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی سوچ، حقائق سے انکار کے زمرے میں نہیں آتی؟ اس حوالے سے اِسٹیو گراس کہتے ہیں کہ پرامید رویہ کاحامل شخص زندگی میں بُری چیزوں کو قبول کرتا ہے تاہم وہ انھیں لے کر زندگی سے مایوس نہیں ہوجاتا۔ ’’ہمارے نزدیک پرامیدی کی تعریف خود میں، دوسروں میں اور اپنے ارد گرد اچھائی کو دیکھنے، محسوس کرنے اور اس پر توجہ مرتکز رکھنے کی استعداد ہے‘‘۔
ماہرین کے مطابق، درج ذیل طریقوں پر عمل کرکے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں پرامیدی کے جذبات کو پروان چڑھا اور اینگزائٹی گھٹا سکتا ہے۔
اپنی سوچ کو بدلیں
جب ڈاٹیلو اپنے کلائنٹس کی اینگزائٹی کے مسائل پر کام کرتی ہے تو وہ ان کی سوچ کو بدلنے کے لیے ’ٹاک تھراپی‘ استعمال کرتی ہیں۔ ’’میں اپنے کلائنٹس کے ساتھ اس بات پر گفتگو کرتی ہوں کہ ہمارے سوچنے کے انداز کس طرح عصبی طور پر ایک گھیرے میں آجاتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم جس طرح اپنے بارے میں، دوسروں اور دنیا کے برے میں جس طرح سوچتے ہیں اس میں تبدیلی لے آئیں تو نئی راہیں تخلیق کرنے میں وقت لگتا ہے‘‘۔
ہمارے دماغ کے ایک حصے کا نام آربیٹل فرنٹل کارٹیکس (OFC)ہے، یہ حصہ دانش، فہم اور جذباتی مراکز سے حاصل ہونے والی معلومات میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ ان لوگوں میں حجم کے لحاظ سے زیادہ بڑا اور زیادہ نشونما پاتا ہےجو ’زیادہ پرامید‘ اور ’کم فکرمند‘ ہوتے ہیں۔
ڈاٹیلو سب سے پہلے یہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنے کلائنٹس کو یہ باور کراسکیں کہ کسی بھی واقعے، حادثے یا بات کو لے کر اس پر سوچنے کے مختلف زاویے ہوتے ہیں۔ وہ ایک سانحے کی نشاندہی کرتی ہیں اور پھر اپنے کلائنٹ کے ساتھ بحث و مباحثے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ اس کے سوچنے کا کون سا زاویہ ’مسئلے کا باعث‘ ہے۔
سوالات کے ایک سلسلے کے ذریعے ڈاٹیلو اور ان کا کلائنٹ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ جب کوئی سانحہ یا واقعہ پیش آیا تو اس وقت اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا اور وہ اب اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔
اس کے بعد وہ اپنے سائنسی علم کی بنیاد پر یہ اندازہ لگاتی ہیں کہ متاثرہ شخص مستقبل کے واقعات سے متعلق پیشگوئی کرنے کے لیے اپنی سوچوں کا کتنا استعمال کررہا ہے؟ ان سوالات کی روشنی میں ڈاٹیلو یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ، ان کے کلائنٹ کو کیا کرنے اور کیا نہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس میں سب سے اہم کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو سوچنے کے نئے زاویے اپنانے کی پریکٹس کرنا پڑتی ہے۔ ’’بہت سارے لوگ پریکٹس کے ذریعے اپنے سوچنے کا انداز بدلنے اور اس میں استحکام لانے کے لیے جلد ہمت ہار جاتے ہیں۔ اس علاج کا سب سے اہم حصہ ’مینٹیننس اسٹیج‘ ہوتا ہے، جہاں ہم پریکٹس کے ذریعے اپنے سوچنے کے انداز کو بڑی حد تک بدل چکے ہوتے ہیں، جب متاثرہ شخص اس اسٹیج سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کے سوچنے کے انداز میں حقیقی بدلاؤ آتااور اس کے سوچنے کا نیا انداز ہی اس کا فطری (اور مثبت) انداز بن جاتا ہے‘‘۔
مزید برآں، ماہرین کے مطابق، متاثرہ شخص اپنی اینگزائٹی پر قابو پانے کے لیے یا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اینگزائٹی کبھی بھی اس کے پاس نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ پرامید لوگوں کے درمیان رہے، ایسے لوگوں کی فہرست بنالے جن کے ساتھ وقت گزار کر اور بات کرکے وہ اچھا محسوس کرتا ہے، روزانہ کوئی مثبت کام کرنے کی نیت کرے، گھر سے باہر نکلے اور چیزوں پر غور کرے اور خود میں مُسکرانے کی عادت پیدا کرے۔