وہ بھی نرم گرم سے دن تھے جب فیلڈ مارشل ایوب نے لاہور میں خطاب کیا۔ شام کا وقت تھا گورنر ہاؤس لاہور میں فیلڈ مارشل خطاب کرنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے جلسوں پر باتیں کر رکھے تھے کہ گورنر ہاؤس کے سامنے لارنس روڈ پر کوئی جلوس گزراجس کی سربراہی کرمانی صاحب کر رہے تھے اور چمچہ چمچہ پکار رہے تھے۔ ایوب خان کے کانوں میں ہلکی آواز پڑی، تو فوراً الطاف گوہر صاحب سےپوچھا ’’یہ کیا آوازیں ہیں۔ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ گوہر صاحب نے فوراً پلٹ کر کہا ’’کچھ کراکری مانگ رہے ہیں۔ ابھی سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘ مجھے یہ فقرہ سن کر تھوڑا سا غصہ آیا، بولی گوہر بھائی آپ نے یہ کیوں کیا۔ غصے سے میری طرف مخاطب ہوئے ’’تم خود کو حلقۂ ارباب ذوق‘‘ تک محدود رکھو۔ اس کے کوئی چھ مہینے بعد یا سال بھر بعد، ایئرپورٹ پر گوہر بھائی سے سامنا ہوا۔ داڑھی تھی اور رہا ہو کر آرہے تھے۔ مجھے دیکھا فورا ًبولے کشور یہ تو بتاؤ ملک کا کیا حال ہوگیا ہے میں نے ترنت جواب دیا ’’مجھے کیا خبر، مجھے تو بس حلقے کا سلسلہ یاد ہے۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میرا کندھا تھپ تھپا کر آگے بڑھ گئے۔
کل شام ٹی وی پر ترمیم 27ء کا تذکرہ کرنے والے سارے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ دیکھو اس میں سے وزیراعظم اور صدر نے خود کو تاحیات اور معافی کے الفاظ حذف کر دیئے۔ میں نے یہ سب سن کر انگور کھاتے ہوئے، اپنی جوانی میں غوطہ لگایا، پہلے تو ایک ہفتہ پہلے ہمایوں گوہر کے انتقال کی خبر سنی، زہرہ آپا کو کراچی فون پر تعزیت کی کہ وہ گزشتہ دو ماہ میں دو دفعہ اسلام آباد آئیں اور سب سے پہلے افتخار عارف کے ساتھ، انکا حال پوچھنے گئیں ہر دفعہ مایوس واپس آئیں کہ وہ کبھی کبھی ہوش میں آتےتھے۔
کہیں کی اینٹ،کہیں کا روڑہ۔ تخیل نے یکدم 50برس پہلے کی قلانچ بھری۔ خود کو کھینچ کر واپس لائی تو پھر ٹی وی پر خبر چل رہی تھی’’ بہت بڑی خطیب عارفہ زہرہ وفات پاگئیں‘‘۔ ایک دم پھر یادوں کی پوٹلی کھولی۔ گزشتہ چھ سات سال سے ہر ادبی نشست میں، بالخصوص ڈاکٹر عارفہ کا آدھے گھنٹے کا خطاب۔ خاص اہمیت رکھتا تھا، وہ چیئرپرسن ویمن کمیشن بھی رہیں اور فیض گھر میں غالب اور فیض کی شاعری نوجوانوں کو سمجھاتی رہیں۔ دنیا بھر کی ادبی محفلوں کی جان رہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ان کی کتنی اور کونسی کتاب ہمیں پڑھنے کی ہدایت کریں گی۔ سچ پوچھیں تو بہت پیچھے پڑ کر میں نے عارفہ سے ایک مضمون تعلیمی صورتحال پر لکھوایا مگر وہ لطف کہاں جو ان کی بے ساختہ گفتگو میںتھا ،روانی میں کہنا کہ’’ میرے محبوب ضیاء الحق نے خواتین پہ کیا کرم فرمائیاں کیں‘‘تو پورا ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونجتا رہتا۔ آپ میری اور زہرہ آپا کی طرح سفید بال اور مسکراہٹ پہنے رہیں۔ ابھی میں نے یادوں کی پوٹلی بند نہیں کی تھی کہ اگلی خبر اچانک پڑھنے کو ملی کہ سینیٹر عرفان صدیقی بھی خدا سے ملنے چلے گئے۔ بنیادی طور پر صحافی تھے، پھر ادبار کے دنوں میں ہتھکڑی پہنے نظر آئے۔ اخباروں میں لکھنے والوں کے جتنے قلم تھے سب نے اس ہتھکڑی پر لعنت بھیجی حرف کی حرمت مانگی، ایسے سب نعرے اور کالم رائیگاں نہ گئے کہ چند مہینوں بعد وہ پھر گھر پر بیٹھے لکھ رہے تھے۔ نواز شریف ایسے دوستوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے تھے، وہ اُنہیں بھی اپنے دیگر دوستوں کی طرح سیاست میں لے آئے۔ کالم لکھنا وہ بھولے نہیں تھے۔ قلم اور سیاست دونوں چلتے رہے۔
میں اب گھسیٹ کر اپنے آپ کو قلم چلانے اور آج کےکالم میں 27ویں ترمیم کو سینیٹ سے رات گئے تک بحث کے بعد پاس ہوتے دیکھنے لگی۔ عدالتی دوست بھی تفصیلات کے لیے ابھی زبان نہیں کھول رہے تھے۔ مجھے فیلڈ مارشل کی ذمہ داریوں میں اضافے کا احاطہ کرنے میں کچھ دیر لگی۔ چونکہ یہ ذمہ داریاںتاحیات ہیں تو مجھے چینی سائنسدانوں کی تحقیق یاد آئی۔ انہوں نے کہا ہے کہ سائنسی تجربوں کے باعث انسان کی عمر ڈیڑھ اور دو سو سال تک جاسکتی ہے۔ میرے ہاتھ اچانک اٹھ گئے، اپنے فیلڈ مارشل کی دراز عمری کے لئے۔ اللہ نگہبان۔