• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب اصلاحات: کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کا نیا عزم

پروفیسر ڈاکٹر نجم الحسن

ماہر معیشت و طرز حکمرانی

پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے مقصد کے تحت قومی احتساب بیورو (NAB) کا قیام عمل میں لایا تو گیاَ مگر اس کا نام جنرل مشرف کے دورِ اقتدار سے ہمیشہ ایک متنازع ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک طرف یہ ادارہ سرکاری عہدے کے غلط استعمال اور قومی وسائل کی بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے ضروری سمجھا جاتا رہا ہے، تو دوسری طرف اس کے اقدامات بعض اوقات سیاسی پس منظر کے تابع دکھائی دیے ہیں۔ پاکستان کے بے شمار سیاستدان کبھی NAB کی حراست میں رہے اور بعد میں عدالتوں نے ان کے خلاف کیسز ختم کر دیے۔ یہ اور ایسے کئی معاملات ادارے کی شفافیت اور غیرجانبداری کے حوالے سے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔

2022 میں قومی اسمبلی نے نیب آرڈیننس 1999 میں اہم ترامیم کیں، جن میں دو قانون سازیاں کی گئی، نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی (ترمیمی) ایکٹ، 2022 اور نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی (دوسری ترمیم) ایکٹ، 2022۔ ان ترامیم نےنیب کے دائرہ کار کو محدود کیا۔ اب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکسیشن کے معاملات، کابینہ کے فیصلے، کمیٹیاں اور ریگولیٹری ادارے اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ بدعنوانی کی تعریف میں یہ شق شامل کی گئی کہ صرف مالی فائدے کے شواہد موجود ہوں اور تحقیقات کے لیے کم از کم 50 کروڑ روپے کی مالی رقم ہونا ضروری ہے۔ اس سے ادارے کی توجہ بڑے مالی اسکینڈلز اور واضح نقصان والے کیسز کی جانب مرکوز ہو گئی، جبکہ چھوٹے یا پیچیدہ غیرمالی معاملات سے ممکنہ تجاوزات سے بچاؤ ہوا۔

ان قانونی ترامیم کے بعد نیب نے اپنے اندرونی نظام میں بھی اصلاحات کیں۔ ہیڈکوارٹر میں مرکزی شکایت سیل اور ریجنل بیوروز میں شکایات کے سیلز قائم کیے گئے تاکہ مقدمات کو مقررہ مدت میں چھانٹ کر آگے بڑھایا جا سکے۔

منی لانڈرنگ کے خلاف نیب کی کارروائیاں بھی نمایاں رہیں۔ تقریباً 118 ارب روپے کے غیر قانونی اثاثوں پر مشتمل 21 بڑے مقدمات میں کامیاب کارروائیاں کی گئیں۔ غیر ملکی اثاثوں کی تلاش کے لیے نیب نے ملائشیا، سعودی عرب، آسٹریلیا، چین، سری لنکا، روس اور تاجکستان سمیت کئی ممالک کے ساتھ مفاہمتی یادداشتیں دستخط کیں اور انٹرپول و دیگر بین الاقوامی نیٹ ورکس کے ذریعے معلومات کے تبادلے کو مؤثر بنایا۔ادارے کے قیام سے فروری 2023 تک 23 سال میں نیب نے 883.58 ارب روپے کی وصولیاں کیں، جبکہ صرف مارچ 2023 سے اکتوبر 2025 کے دوران یعنی دو سال سات ماہ میں 8397.75 ارب روپے کی ریکارڈ ریکوری کی گئی۔ اس طرح مجموعی طور پر نیب نے 9281.33 ارب روپے (9.28 ٹریلین) کی وصولی کی، جو دنیا کے کسی بھی احتسابی ادارے کے مقابلے میں غیر معمولی کامیابی ہے۔

بھی ایسا وقت بھی تھا جب "احتساب" کا لفظ سن کر عوام میں خوف پیدا ہوتا تھا۔ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن میں زیرِ حراست افراد نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ان افسوسناک سانحات نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ سوال پیدا کیا کہ اگر احتساب انصاف کے بغیر ہو تو پھر اس کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ ان واقعات نے یہ احساس دلایا کہ کرپشن کے خلاف جنگ ضروری ہے، مگر اس جنگ میں انسانیت، شفافیت اور بنیادی حقوق قربان نہیں کیے جا سکتے۔ یہی احساس نیب کی اصلاحات کی بنیاد بنا — ایک ایسا سفر جو خوف سے اعتماد، اور جبر سے انصاف کی طرف بڑھا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ احتساب کے نظام میں خود احتسابی سب سے ضروری ہے۔ اسی مقصد کے تحت حکومت اور پارلیمان نے 2022 میں نیشنل اکاؤنٹیبلٹی (ترمیمی) ایکٹ اور نیشنل اکاؤنٹیبلٹی (دوسرا ترمیمی) ایکٹ منظور کیے۔ ان ترامیم کے ذریعے نیب کے اختیارات کو ازسرِنو متعین کیا گیا، تاکہ اس کا دائرہ کار صرف حقیقی مالی کرپشن تک محدود رہے۔ اب نیب ٹیکس سے متعلق معاملات، کابینہ یا ریگولیٹری اداروں کے پالیسی فیصلوں اور انتظامی نوعیت کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ "بدعنوانی اور بدعنوان عمل" کی تعریف میں ترمیم کرتے ہوئے **مالی فائدے کے ثبوت کو لازم** قرار دیا گیا، جبکہ **پانچ سو ملین روپے** سے کم مالیت کے مقدمات کو نیب کے دائرے سے خارج کر دیا گیا۔قانونی اصلاحات کے بعد نیب نے اپنے اندر بھی بڑی تبدیلیاں کیں۔

نیب نے اپنے اہلکاروں کے لیے اندرونی احتسابی سیل بھی قائم کیا تاکہ خود ادارے کے اندر شفافیت اور دیانتداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ ریجنل دفاتر میں ہر ماہ عوامی سماعتیں منعقد کی جاتی ہیں جہاں شہری براہِ راست اپنے مسائل پیش کر سکتے ہیں۔ ای۔آفس سسٹم نے نیب کے کام کو مکمل طور پر ڈیجیٹل کر دیا ہے، جس سے کاغذی کارروائی کم اور شفافیت زیادہ ہوئی ہے۔ گوادر اور چمن میں ذیلی دفاتر قائم کر کے عوام کی رسائی بڑھائی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مدعا علیہ کو ہر مرحلے پر حقِ سماعتدینے کا اصول بھی شامل کیا گیا۔ کسی بھی مرحلے پر اگر کسی مقدمے میں کمی یا غلطی محسوس ہو تو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی اسے درست کر سکتی ہے۔ نیب نے پاکستان اینٹی کرپشن اکیڈمی (PACA) بھی قائم کی ہے تاکہ ملک بھر کے انسدادِ بدعنوانی اداروں کو تربیت اور تحقیق کی سہولت دی جا سکے۔

ان اصلاحات کے اثرات جلد ہی نمایاں ہونے لگے۔ شکایات کی تعداد 2338 سے کم ہو کر 1639 رہ گئی، اور جانچ کے بعد صرف 20 کیسز قابلِ تفتیش قرار پائے، جو پہلے 79 تھے۔ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال ہوا، سرکاری افسران کا حوصلہ بڑھا، اور عوام میں نیب کے بارے میں اعتماد پیدا ہوا کہ اب احتساب کا نظام انصاف پر مبنی ہے، انتقام پر نہیں۔نیب نے ریاستی اثاثوں کی حفاظت کو ترجیح دی۔ یہ تمام اصلاحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ احتساب کا مقصد کسی کو کمزور کرنا نہیں بلکہ پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔ نیب نے یہ ثابت کیا ہے کہ شفافیت، قانون کی بالادستی اور انسانی احترام کے ساتھ بھی کرپشن کے خلاف کامیاب جنگ لڑی جا سکتی ہے۔

یہ ایک نئے پاکستان کی سمت قدم ہے — جہاں ادارے اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہیں، انصاف توازن کے ساتھ ہوتا ہے، اور احتساب قوم کی خدمت کا ذریعہ بنتا ہے، انتقام کا نہیں۔ نیب کی اصلاحات اس امید کی علامت ہیں کہ اگر نیت صاف ہو تو نظام بدل سکتا ہے، اور ایک بہتر، دیانتدار اور ترقی یافتہ پاکستان ممکن ہے۔

ملک بھر سے سے مزید