• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غلام ہندوستان کی آزادی کا وعدہ پورا کرنے کیلئے 1935ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ ہوا توسعادت حسن منٹو نے شاہکارافسانہ ’’نیا قانون‘‘ لکھا۔ جس کا مرکزی کردار’’ منگو کوچوان‘‘ نئے قانون سے ملنے والی آزادی اور نوآبادیاتی نظام کی غلامی سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب جبکہ تضادستان میں27ویں ترمیم کے بعد ہم بہتری اور اونچی اڑان کی طرف جارہے ہیں تو نہ کوئی منٹو ہے نہ غلام ہندوستان ہے اور نہ ہی منگوکوچوان۔ اب تو لفافہ اور پٹھو صحافی ہے، آزاد تضاد ستان ہے اور چمچہ تانگے بان۔ جیسی بھی صورتحال ہے اس’’نئے دور‘‘ کا چمچہ تانگے بان اورلفافہ صحافی کی نظر سے ہی جائزہ لے لیں۔’’نئے دور ‘‘ افسانے کے دونوں کردار یعنی لکھاری عرف لفافہ صحافی اور منگو عرف چمچہ تانگے بان، دونوں خالص تضادستانی ہیں سرخ مرچ کے رسیا ہیں شاید اسی لئے ان کی جنیاتی ساخت (DNA)نے انہیں جذباتی اور پرجوش بناڈالا ہے، غیر جذباتی سوچ اور منطقی استدلال سے دونوں ہی کوسوں دور ہیں۔ یہ دونوں ہی متعصب جانبدار اور یک رخے،آگ کے گولے بن چکے ہیں۔ انہیں نہ توملک میں پیدا ہونیوالااستحکام نظر آرہا ہے، نہ انہیں ملک کی بہتری کیلئے اختیار کیے جانیوالے راستے کا علم ہے اور نہ ہی یہ بدھو اونچی اڑان کی طرف سفر کودیکھ پارہے ہیں۔ یہ عقل کے اندھے سیاسی بتوں کے پجاری اور ماضی کے اندھیروں کی دلدادہ چمگادڑیں ہیں جو نئے دور کی روشنیوں اور ملک میں آنیوالے انقلاب کو محسوس کرنے سے بالکل عاری ہیں۔

اب جبکہ نیا دور آچکا ہے دھند چھٹ چکی ہے، نیلا آسمان اور پھر اس میں سے روشن سورج دمکتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سب کچھ بدل رہا ہے لفافہ صحافی کیلئے یہ شاندار اور نادر موقع ہے کہ پچھلے دور کے سارے کیڑے باہر نکال کررکھ دے اور ماضی کے پسماندہ اور ازکار رفتہ نظام نے کس طرح ملک کی ترقی کی رفتار کو جکڑا ہوا تھا اسے سب کے سامنے ظاہر کردے تاکہ ہر خاص وعام آگاہ ہوسکے کہ ہمارے ترقی نہ کرنے کی اصل وجہ ماضی کا اندھیرا دور تھا اب سب کچھ ٹھیک ہونے جارہا ہے۔ ماضی میں سب کچھ ہی خراب تھا کیا میڈیا، کیا پارلیمان، کیا سیاسی جماعتیں، کیا سیاسی لیڈر اور کیا عوام۔یہ سب ہی گمراہی کا شکار تھے، اصل میں یہ سب ایک واہمے ’’ جمہوریت کی بیماری‘‘ کا شکار تھے حالانکہ اسی جرثومے نے انکے دور کو جکڑ رکھا تھا اور اسی نے اس ملک کا راستہ کھوٹا کررکھا تھا۔ نئے دور میں جمہوریت کے جرثومے میں موجود منفی چیزوں کو ختم کردیا جائیگا اور یہی ملک اگلے دس سال میں دنیا کی20بڑی معیشتوں میں شمار ہونے لگے گا، اس ملک کے اندر چھپی معدنیات اورخزانے اربوں ڈالر کی آمدن دینے لگیں گے، بھارت کو شکست دینے کے بعد دنیا بھر میں ہماری دھاک بیٹھ چکی ہے ہمارا اسلحہ، ہمارے جہاز، ہمارے گولا بارود اور سب سے بڑھ کر ہمارا ہنر اور مہارت چہاردانگِ عالَم میں سرچڑھ کربول رہےہیں، ہمارے جنگی سازوسامان اور صلاحیتوں کی اب دنیا بھر میں مانگ ہے ،وہ نیا دور آچکا ہے کہ ہمیں اس قدر آرڈر موصول ہونگے کہ ہم سپلائی پوری نہیں کرسکیں گے ۔لفافے اور چمچے اندھیرے کے چھٹنے ، پو پھٹنے اور رات کو دن میںتبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔تضادستان کی باقی بستیوں کاتو معلوم نہیں کیا احوال ہے مگر لاہواور قصومیں تو سب کچھ بدل گیا ہے ۔موسم سرما میں ہی بہار آگئی گل داؤدی کی نمائش شروع ہوگئی، رنگ برنگے اودے اودے، نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن اوڑھے پھول فضا کو رنگین کررہے ہیں اور تو اور برسوں سے غائب فضا میں رقصاں پتنگیں بھی دوبارہ سے ظاہر ہونے لگی ہیں ،اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ جب تبدیلی آتی ہے تو خس وخاشاک بھی ہیرے اور موتی کا روپ دھار لیتےہیں ،چرند پرند چہچہانے لگتے ہیں، درخت سرسبز ہو کر لہلہانے لگتے ہیں، فضا میں موسیقیت پیدا ہوجاتی ہے۔ لفافے اور چمچے دیکھیں نہ دیکھیں، سونگھیں نہ سونگھیں، بدلیں نہ بدلیں انکے اردگرد تو سب کچھ بدل رہا ہے۔

تضادستان کا اصل مسئلہ جھوٹا بیانیہ جعلی خبریں اور یکطرفہ پراپیگنڈا بنا ہوا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فورتھ جنریشن وارفیئر کے نام پر ماضی کے دور میں ہر سچے کو جھوٹا، ہر ایماندار کولفافی اور ہر غیر جانبدار اور غیر متعصب کو جانبدار اور متعصب ثابت کیا گیا ،جس طرح تاریخ میں ہر بلھے شاہ کو مطعون کرکے اس کا بائیکاٹ کیا جاتا رہا،وہی وبا اب فیشن ہے۔ شاہ زیب خانزادہ ہوں یا حامد میر، کبھی جھوٹے عوامیوں اور کبھی نام نہاد خداؤں کا نشانہ بنتے ہیں اورکئی گم نام کبھی ادھر اور کبھی ادھر سے گالیاں کھاتے ہیں ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا لفافے اور چمچے نئے دور میں اس صورتحال کو بدلتا دیکھیں گے، کیا اب سچ اور جھوٹ میں کوئی حد فاصل قائم ہوگی، کیا صحافت کے ڈالر کماؤ یوٹیوبرز اور حکم جماؤ نظریہ ساز نئے دور میں سانس لینے دینگے یا پھر وہی روش جاری رہےگی ۔ادھر سے بھی پتھر ادھر سے بھی سنگ زنی کیا کبھی اس ٹریفک کا ریڈ سگنل بھی آئے گا؟

تضادستان کی سیاسی جماعتیں اور قیادت بھی پرانے دور سے نئے دور میں داخل ہوگئی ہیں، وراثتی سیاست، مفاداتی ٹکراؤ اور بے عقل طرز حکمرانی کی نئے دور میں گنجائش ہوگی یا نہیں؟ کیا واقعی اب کابینہ یا اسکے مشیر دنیا کے نامور پی ایچ ڈی ہوا کرینگے؟ کیا واقعی سیاسی جماعتیں ٹاسک فورس بناکر مختلف ایشوز کے بارے میں ہوم ورک کیاکریں گی۔نئے دور میں دفاع اور سلامتی مضبوط ترین ہوگئے ہیں، پہلے بھی دشمن کے دانت کھٹے کئے تھے اب بھی اسکی بری نیت کا مقابلہ کرنے کیلئے مزید حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہے ،بیرونی دشمنوں کیساتھ افغان خوارج اور ہندوستانی فتنوں کا بھی بھرپور توڑ کرنے کا موثر انتظام ہے گویا ملکی سلامتی اب ایک آہنی ستون کے سہارے پر کھڑی ہے کوئی مانے نہ مانے محافظ کبھی اتنے مضبوط نہ تھے جتنے آج ہیں ۔ڈالر کماؤ یوٹیوبرز اور نام نہاد ففتھ اور فورتھ جنریشن وارفیئر کے تربیت یافتہ اب جمہوریت کے چیمپئن بن گئے ہیں حالانکہ ماضی کے ادوار میں وہ جمہوریت کے سینے میں سرعام چھرے گھونپتے تھے۔ طوطی کی آواز نقار خانے تک رہے گی مگر لفافے اور چمچے ایک طرف نئے دور کی آمد پرخوش اور نہال ہیں تو دوسری طرف پریشان ہیں کہ اگر چہ دفاع کا ستون تو بہت مضبوط ہوگیا ہے مگر ریاست کے باقی چار ستون بھی ریاست کی چھت اور عمارت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہیں، ایک ستون تو لوہے کا ہوگیا اور دفاع کیلئے ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے مگر پارلیمانی ستون ، جمہوری ستون اور سیاسی ستون مٹی اور ریت کی طرح رہے تو ریاست کی بنیادیں کیسے مضبوط ہونگی۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ’’ پریس اور قوم ایک ساتھ عروج پاتے ہیں اور ایک ہی ساتھ ان پر زوال آتا ہے اگر آزادی اظہار رائے پرتوجہ نہ دی گئی تو پاکستانی میڈیا کا حال ہاتھ بندھے مغوی کا ہوگا جسکو باہر بیٹھے ڈالر کماؤ یوٹیوبرز دورمار تیروں سے نشانہ بنارہے ہونگے۔ کاش لفافوں اور چمچوں کی گھٹی ہوئی آواز بھی نئے دور میں کھلنے کا سامان ہوجائے تاکہ وہ بھی جوابی تیر ونشتر سے حملہ آواروں کاجواب دے سکیں۔ لفافہ صحافی اور چمچہ کوچوان نئے دور کی آمد پربہت خوش ہیں مگر نئے دور سے جو اچھا طلوع ہوگااس کے اثرات صرف ایک پر نہیں سب پرپڑنے چاہئیں تبھی لفافے اور چمچے حوصلہ پکڑیں گے۔

تازہ ترین