• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیشۂ نظر

دریا کے کنارے کھڑے ہیں۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ دریا پار کر لیا ہے یا ابھی پانی میں پائوں دھرا ہے اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ اس کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ہو گا۔ ہم یونانی دیومالا کے دیوتا سسی فس کی آزمائش میں ہیں جسے سزا ملی تھی کہ بھاری پتھر اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو پتھر لڑھک کر پھر نیچے آگرے۔ واضح رہے کہ قائداعظم نے پاکستان کو کبھی تجربہ گاہ نہیں کہا۔ 12اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور کی جس تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا متن حرف بحرف محفوظ ہے۔

بابائے قوم نے تجربہ گاہ کا لفظ ادا نہیں کیا۔ یہ اعزاز تو لیاقت علی خان کا ہے جنہوںنے ٹھیک گیارہ ماہ بعد 12مارچ 1949ء کو قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد پاکستان کو ایک ایسی تجربہ گاہ قرار دیا تھا جہاں دنیا پر یہ ثابت کیا جا سکے کہ اسلام ایک ترقی پسند قوت ہے اور انسانیت کو درپیش مصائب کا حل پیش کر سکتا ہے۔ لیاقت علی خان نے بھی ’تجربہ گاہ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے یہ اشارہ نہیں دیا تھا کہ یہاں کے شہریوں کو خرگوش سمجھ کر ان پر نشتر آزمائی ہو گی۔ انگریز حکمران برطانوی ہندوستان سے رخصت ہوئے تو بٹوارے میںپاکستان کو متحدہ ہندوستان کے 17.5فیصد وسائل اور 23.4فیصد رقبہ ملا۔ برطانوی ہند کی کل آبادی میںسے 17.3فیصد باشندے پاکستانی قرار پائے جبکہ ہندوستانی فوج کا 36 فیصد پاکستان کے حصے میں آیا۔ مسلم لیگ کسی منظم سیاسی جماعت سے زیاد ہ ایک تحریک کا مزاج رکھتی تھی۔

مسلم لیگ نہ تو اپنافرقہ وارانہ (Communal ) تشخص تبدیل کرنے پر آمادہ تھی اور نہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے قیام کی روادار تھی۔دسمبر 1947ءمیں خالق دینا ہال کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری رسمی اجلاس اسی سیاسی اور ریاستی عدم توازن کی عکاسی کرتا تھا جسے حمزہ علوی نے 1972ءمیں

The State in Post

Colonial Societies: Pakistan and Bangladesh

کے عنوان سے اپنے مقالے میں پیش کیا تھا۔ کمزور سیاسی روایت کے مقابل مضبوط ریاستی ڈھانچہ جس کی تشکیل ہی عوام کو رعایا سمجھنے کے بیانیے پر قائم تھی۔ شیر علی خان پٹودی کی گواہی موجود ہے کہ میجر جنرل افتخار خان کو لاہور میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے فوج کے آئندہ سربراہ کے طور پر نامزدگی کی اطلاع دی تھی۔ پٹودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایوب خاں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ نامزد فوجی سربراہ افتخار خان سے ملاقات کے خواہش مند ہیں ۔

13دسمبر 1949ءکو کراچی کے قریب C-53کے حادثے پر کوئی جامع تحقیق موجود نہیں ۔ یہ پاکستان میں ایک بڑے تجربے کا نکتہ آغاز تھا جس کے آئندہ سنگ میل 17جنوری 1951ءکو ایوب خان کی سربراہ افواج کے طور پر تقرری ، فروری 53 میں پنجاب کے فسادات ،مارچ 1951ءمیں پنڈی سازش کیس اور اکتوبر 1954ء کی کابینہ میں اسکندر مرزا اور ایوب خان کی شرکت جیسے تجربات شامل تھے۔

آخر ایوب خان فروری 1953ءمیں کس حیثیت میں امریکی قونصل جنرل گبسن کو بتا رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور حکومت سنبھال لے گی۔ ایوب خان 1954ءمیں لندن کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنانے کا منصوبہ کس اختیار کے تحت تیار کر رہے تھے۔ ون یونٹ نے وفاق پاکستان کے خدوخال ہی بدل ڈالے۔ اکتوبر 1958ءمیں مارشل لا کے نفاذ پر پاکستان ٹائمز کے صحافی انور علی (ننھا) نے کہا تھا کہ ہماری نسلیں رائیگانی کا تاوان دیں گی ۔

مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزیر تجارت فضل الرحمن نے تو 1954ءمیں دستور ساز اسمبلی ٹوٹنے ہی پر پاکستان کے دو لخت ہونے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ اسکندر مرزا کی کنٹرولڈ جمہوریت اور ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا تجربہ درحقیقت 16دسمبر 1971ءکو اختتام پذیر ہوا لیکن تجربہ گاہ میں بزرج مہر بدستور حالت استغراق میں رہے۔ بریگیڈیئر ضیاالحق کو گل حسن نے کورٹ مارشل سے بچایا تھا۔

گل حسن کے عزائم مارچ 1972 میں فسخ ہوئے تو ان کا مشن جولائی 1977 ءمیں ضیاالحق نے پورا کیا۔ اس تجربے سے افغان جہاد ، لسانی اور فرقہ وارایت ، دہشت گردی اور سیاسی عمل کے افلاس نے جنم لیا۔ تجربہ گاہ کی دیوار کے سائے میں بیٹھے زمیں زادوں نے 14مئی 2006کو میثاق جمہوریت اور اپریل 2010 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی گستاخی کی تو اس کے جواب میں و ہ تجربہ شروع ہوا جو 9 مئی 2023 تک پہنچا۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو غیر معمولی حالات میں سزا سنائی گئی ہے ۔ لیکن پندرہ برس پر محیط ساڑھ ستی کا تجربہ ختم ہوا ہے۔ تجربہ گاہ میں تحقیق اور تدقیق کا عمل جاری ہے۔ملک میں ناخواندہ آبادی کی اکثریت اور نام نہاد تعلیم یافتہ طبقے کے ذہنی دیوالیہ پن سے قوم کے سیاسی شعور میں گہراہل چلا دیا گیا ہے۔

اس زمین پہ روئیدگی کی نمود ناممکن نہیں تو مشکل تر ضرور ہو گئی ہے۔ عمران خان کا مجسمہ تراشنے میں جو ملبہ چاروں طرف گرا ہے اس میں متبادل سیاسی قوتوں کی توقیر دفن ہو گئی ہے۔ ہم ایک مشکل مرحلے میں ہیں ۔ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوا کرتے۔16دسمبر 1971کی شام یحییٰ خان قوم کو ایک نیا آئین دینا چاہتے تھے۔ اقتدار اور اختیار کے ارتکاز میں ایسی ہی بے بصری جنم لیا کرتی ہے۔ جاننا چاہیے کہ معیشت کا احوال وزیر خزانہ کے اعلانات سے اخذ نہیں کیا جاتا۔ ہم نے تو محمد شعیب سے شوکت عزیز اور پھر شوکت ترین تک ایسے وزرائے خزانہ دیکھ رکھے ہیں جو ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف جیسے اداروں سے درآمد کیے جاتے تھے اور موقع ملنے پر اِس ملک کی معیشت پر کلہاڑا چلانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

ہماری مشکلات زیر زمین خندقوں کا ایک پھیلا ہوا جال ہیں۔ اس اندھیری سرنگ میں قید پرندوں کی رہائی کا راستہ یہی ہے کہ پیڑ کی بربادی پر توجہ دی جائے۔ تجربہ گاہ کے مراق سے نجات پاکے حرف آئین اور شفاف جمہوری عمل سے رجوع کیا جائے۔

تازہ ترین