پاکستان ایک امن پسند مملکت ہے جو ہر دور میں امن واستحکام کا خواہاں رہا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے سرحد پار سے ملنے والی پشت پناہی نے کچھ شر پسند عناصر کو امن و ترقی کا دشمن بنا دیا۔ یہ گروہ نہ صرف ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ بلوچستان کے سادہ لوح شہریوں کی جان و مال اور ترقیاتی منصوبوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ بلوچ بھائی ہمیشہ سے اس سرزمین کے وفادار اور ذمہ دار شہری رہے ہیں، ان کا پاکستان سے رشتہ خون کا ہے۔ مگر کچھ لوگ بعض اوقات کسی لالچ، غلط فہمی یا کسی دوسری وجہ سے اس گمراہ کن لہر میں بہہ گئے۔ جو لوگ اس غلط راستے کا احساس ہونے پر واپسی کے سفر کی خواہش رکھتے ہوں ان کیلئے ریاست پاکستان نے ہمیشہ کشادہ دلی کا ثبوت دیا ہے۔ جو کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دے، آئین پاکستان کو مان لے اور امن کی راہ اپنا لے، اس کیلئے دروازے کھلے ہیں۔ سوئی میں 100سے زائد افراد کا ہتھیار پھینک کر قومی پرچم تھامنا اور وفاداری کا حلف اٹھانا اسی پالیسی کا زندہ ثبوت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جواب سمجھ گئے کہ انہیں استعمال کیا جا رہا تھا، انکے ہاتھوں بلوچ ہی مارا جار ہا تھا، ان کے خواب چوری کئے جا رہے تھے۔ ریاست نے انہیں سینے سے لگایا، کیونکہ یہ ہمارے اپنے بچے ہیں۔مگر دوسری طرف جو ضدی اور ہٹ دھرم ہیں،جو بھارتی سر پرستی میںبیگناہ شہر یوں کا قتل عام کرتے ہیں، ان کیلئے گولی اور موت ہی واحد جواب ہے۔ ایک ہی دن میں 26 دہشتگردوں کا خاتمہ اسی پالیسی کا دوسرا رخ ہے۔ یہ کوئی تضاد نہیں، بلکہ مکمل اور واضح بیانیہ ہے۔ ہتھیار چھوڑ دو تو عزت اور تحفظ، ہتھیار اٹھائے رکھو تو تباہی اور موت۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ ٹارگٹڈ آپریشنز میں مزید تیزی لائی جائے۔ ایک طرف سرنڈر کے دروازے کھلے رکھے جائیں، دوسری طرف دہشت کے گڑھوں کو مسمار کرنے کا عمل تیز تر کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت کے گھناؤنے کردار کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دہشتگردی کی سپلائی چین چلا رہا ہے۔سکھ فارجسٹس کی طرف سے امریکی صدر کو لکھا گیا خط اسکی واضح مثال ہے جس میں بھارتی ایجنسیوں پر بیرون ملک ٹارگٹ کلنگ کی سازشوں کے ثبوت پیش کئے گئے۔خو د سکھ رہنما گر پتونت سنگھ پنوں نے بھارت کو عالمی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیاہے۔ یہ وقت ہے کہ پوری قوم متحد ہو، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ریاستی اداروں کا ساتھ دے اور بھارتی پرو پیگنڈے کا منہ بند کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہونے والی تازہ کارروائیوں اور ان کے نتیجے میں دہشتگرد تنظیموں اور گروہوں کو بھاری نقصان پہنچانےپر ہماری سیکورٹی فورسز واقعی مبارک باد کی مستحق ہیں۔ ان کارروائیوں میں جن دہشتگردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا وہ اگر سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں نشانہ نہ بنائے جاتے تو وہ تخریب کاری کے ذریعے ان ممالک کے ایجنڈے کو فروغ دیتے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کارروائیوں سے ایک طرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے تو دوسری جانب عوام کے جان و مال کا تحفظ بھی یقینی بنایا گیا۔
محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نےبھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں کارروائیوں کے دوران کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 24 دہشتگردوں کو گرفتار کر کے دہشتگردی کا بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں انٹیلی جنس پر مبنی 364 کارروائیاں کی گئیں جن میں 366 مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی اور 24 دہشتگردوں کو اسلحہ، دھماکہ خیز مواد اور دیگر ممنوعہ مواد سمیت گرفتار کیا گیا۔ گرفتار دہشتگردوں کا تعلق فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگرد تنظیموں سے ہے۔ گرفتار دہشتگردوں کو آپریشنز کے دوران لاہور، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، راولپنڈی، فیصل آباد، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، سرگودھا، مظفرگڑھ، سیالکوٹ، راجن پور، جہلم، منڈی بہاؤالدین اور اٹک سے گرفتار کیا گیا۔ دہشتگردوں نے مختلف شہروں میں اہم عمارتوں کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔افغانستان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگرد تنظیموں اور گروہوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت پیچھے بیٹھ کر ان دہشتگرد گروہوں اور تنظیموں کو ہر قسم کی امداد مہیا کر رہا ہے جبکہ افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت انھیں پناہ گاہیں فراہم کر کے دہشتگردی میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمہ وقت مستعد رہتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں کارروائیاں کر رہے ہیں جنکے نتیجے میں دہشتگرد تنظیموں اور گروہوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ایک طرف دشمن قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے اپنی پراکسیزکے ذریعے کارروائیاں کر رہی ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے اندر موجود ملک دشمن عناصر ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کا مقصد انتشار پھیلا کر عوام کو مایوس کرنا ہے۔ سیاسی معاملات کو بنیاد بنا کر ملک کی سالمیت اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو کسی بھی طور مثبت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ باہمی اختلافات پر آپس میں بیٹھ کر مذاکرات کیے جانے چاہئیں نہ کہ ملک دشمن عناصر کا ساتھ دیتے ہوئے مسائل کو بڑھایا جائے۔ دہشتگردی پاکستان کے کسی ایک علاقے یا صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ سب کا اجتماعی مسئلہ ہے، لہٰذا اس کی بیخ کنی کیلئے سب کو ملکر کوششیں کرنا ہوں گی۔ اس سلسلے میں قومی سطح پر مشاورتی عمل شروع کیا جانا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکر صورتحال کا جامع جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ افغانستان اور بھارت کی طرف سے جس طرح ہم پر دہشتگردی مسلط کی جارہی ہے اس کا حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔