• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں درویش گزرے ہوئے زمانوں کی بارِ دگر سیر کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کو فوجی عدالت نے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور شہریوں کو مالی نقصان پہنچانے سے متعلق چار الزامات ثابت ہونے پر 11 دسمبر 2025 کو چودہ برس قید بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان ادارے نے مزید بتایا ہے کہ سیاسی عناصر سے گٹھ جوڑ کر کے اشتعال انگیزی اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے اور کچھ دیگر معاملات میں فیض حمید کے مبینہ کردار پر علیحدہ طور سے کارروائی ہو رہی ہے۔

آئی ایس آئی کا ادارہ 1947 میں کشمیر کی لڑائی کے دوران مطلوبہ معلومات اور مختلف عسکری شعبوں میں ہم آہنگی کے فقدان کے پیش نظر جنوری 1948 میں قائم کیا گیا۔ مئی 1966 تک بریگیڈیئر اور کرنل کی سطح کے افسر اسکے سربراہ تھے۔ 1979سے افغان جنگ کے دوران اس ادارے کا کردار پالیسی ساز فیصلوں، سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں کلیدی اہمیت اختیار کر گیا۔ جدید تاریخ بتاتی ہے کہ جس ملک میں فوج کو سیاسی قوتوں پر بالادستی حاصل ہو، وہاں فوج کے اندر ایک طاقتور قوت کا ظہور ناگزیر ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ فوج کو اپنے پیشہ ورانہ امور بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔ چنانچہ غیر عسکری امور کیلئے ایک مختصر مگر نہایت با اختیار شعبہ تخلیق کیا جاتا ہے۔ 1975 میں بھٹو صاحب نے آئی ایس آئی میں باقاعدہ سیاسی ونگ قائم کیا جو براہ راست فوج کے آئینی کردار سے متصادم تھا۔ اس کے بعد اختر عبدالرحمن، حمید گل، اسد درانی، جاوید ناصر، احسان الحق، اشفاق کیانی، ندیم تاج، شجاع پاشا، ظہیر الاسلام اور فیض حمید جیسے مردان کار کی ایک طویل فہرست نمودار ہوئی۔ جوابدہی سے بالاتر اختیارات سے وسیع تر عزائم کا اکھوا پھوٹتا ہے۔ ’تم ڈال ڈال، ہم پات پات‘ کا کھیل جنم لیتا ہے۔ سیاست، معیشت، عدالت، سول انتظامیہ اور صحافت میں نفوذ کے لامحدود مواقع سے قومی مفاد کے تعین پر اجارے کی غلط فہمی جنم لیتی ہے۔ عوام ایک ماتحت ہجوم قرار پاتے ہیں۔ اپنی غیر معمولی صلاحیت پر اعتماد رعونت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بدعنوانی، قانون شکنی اور اختیارات کے من مانے استعمال کی ترغیب آ لیتی ہے۔

کسی ملک میں اقتدار کے متوازی دھارے شفاف سیاسی عمل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اقتدار کی داخلی کشمکش سے سیاسی عدم استحکام، معاشی ترقی میں رکاوٹ اور بین الاقوامی برادری میں قومی احترام میں گراوٹ جیسے نتائج نکلتے ہیں۔ حتمی تجزیے میں عوام ریاستی بندوبست سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ ذاتی اور ادارہ جاتی بدعنوانی معمول ٹھہرتی ہے۔ ضیا الحق کے بعد اسلم بیگ، آصف نواز، پرویز مشرف، اشفاق کیانی، راحیل شریف اور قمر باجوہ تک کوئی ایسا فوجی سربراہ نہیں آیا، جس نے اپنی مدت ملازمت میں اضافے، قومی بیانیے میں ذاتی ترجیحات کی شمولیت اور سیاسی عمل میں مداخلت کی کوشش نہ کی ہو۔ ایسے میں فیض حمید جیسے کردار کا ظہور ہرگز باعث حیرت نہیں تھا۔ فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ بننے سے قبل ہی نومبر 2017 میں تحریک لبیک کے دھرنے میں مداخلت کے باعث متنازع ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا تو انہیں طویل آزمائش سے گزرنا پڑا۔ 21 جولائی 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریاستی اداروں کی طرف سے عدلیہ پر دبائوکا انکشاف کیا تو انہیں اکتوبر 2018 میں اس وقت کے صدر عارف علوی نے برطرف کر دیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور میجر جنرل فیض حمید کی مداخلت ایک کھلا قومی راز تھا۔ 16 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ کے جلسہ عام سے وڈیو خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے نام لے کر قمر باجوہ اور فیض حمید کو اپنی معزولی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے کے باوجود نواز شریف کا یہ ’جرم‘ معاف نہیں ہو سکا۔ 2024 کے انتخابات میں پانی اس قدر گدلا کیا گیا کہ انتخابی ہار اور جیت میں فرق ختم ہو کر رہ گیا۔ اس دوران فیض حمید نہ صرف افغان پالیسی میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر بنیادی فیصلے کرتے رہے بلکہ پاکستان میں قید کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ افراد بھی رہا کیے گئے مزید براں ہزاروں طالبان کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ رواں ماہ اغوا برائے تاوان اور شہریوں کی زمینوں پر غیرقانونی قبضے کے جن الزامات میں فیض حمید کو سزا سنائی گئی ہے، وہ تو متوازی حکومت کا ایک معمولی حصہ تھا جسے برسوں عدالتوں میں معلق رکھا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ فیض حمید فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی کھلم کھلا تحریک انصاف کی پشت پناہی کرتے رہے۔ ملکی سیاست میں نئے فریق متعارف کرانے کا سودا 1980 کی دہائی تک جاتا ہے۔ 2011 سے تحریک انصاف کے پودے کی آبیاری میں شجاع پاشا، راحیل شریف، ظہیر الاسلام اور قمر باجوہ سے فیض حمید تک کے نام آتے ہیں۔ اگر فیض حمید نے فوج کا سربراہ بننے اور بعد ازاں حکومت سنبھال کر صدارتی نظام کے نفاذ کا خواب دیکھا تو یہ عشروں پرانی روایت کا تسلسل تھا۔ قائد اعظم نے 14 جون 1948 کو کوئٹہ اسٹاف کالج میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فوجی حلف کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا تھا، ’میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ فیصلہ سازی کا اختیار سیاسی حکومت کا ہے۔ آپ عوام کے خادم ہیں۔ آپ کو قومی پالیسی بنانے کا حق نہیں۔ قومی پالیسی سیاسی حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض حکومت کے احکامات کی بجا آوری ہے‘۔ ہم نے پچاس کی دہائی ہی میں قائد اعظم کے اس فرمان کو روندنے کی روایت قائم کر دی۔ اسکا نتیجہ ہے کہ آج اس ملک کے سیاہ و سفید میں عوام بے بس فریق ہیں۔ معیشت جمود کا شکار ہے۔ غیر آئینی گم شدگیوں سے لے کر ماورائے عدالت قتل تک روز مرہ کا معمول ہیں۔ یہ نجف حمید کی چیرہ دستیوں یا تحریک لبیک کے ظہیر الحسن کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے کا معاملہ نہیں، یہ عوام کی حاکمیت کا سوال ہے۔ شاہ حسین نے فرمایا تھا۔ ’نی مائے سانوں کھیڈن دے، ساڈا وت کون کھیڈن آ سی‘۔

تازہ ترین