• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والا ہولناک فائرنگ کا واقعہ، جس میں 16 افراد جان سے گئے نہ صرف انسانیت کے خلاف ایک سنگین اور افسوسناک جرم ہے بلکہ اس کے بعد شروع ہونے والی منظم جھوٹ، نفرت اور تعصب پر مبنی مہم بھی اتنی ہی قابلِ مذمت ہے۔ یہ سانحہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب، قوم یا نسل نہیں ہوتی، مگر افسوس یہ ہے کہ ہر ایسے واقعے کے بعد کچھ مخصوص ریاستی اور میڈیا نیٹ ورکس فوری طور پر مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ اس واقعے کے فوراً بعد بھارتی اور اسرائیلی میڈیا کے بعض حلقوں اور ان سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے، سڈنی حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی مذموم مہم شروع کر دی۔ جعلی تصاویر، من گھڑت دعوے اور قیاس آرائیوں پر مبنی بیانیہ پھیلایا گیا، جسکا مقصد واضح طور پر پاکستان کو بدنام کرنا اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پروپیگنڈا خود ہی اپنے وزن تلے دب گیا اور حقائق پوری وضاحت کے ساتھ منظر عام پر آ گئے۔ انڈین اور اسرائیلی میڈیا کا جھوٹ بے نقاب ہو گیا آسٹریلوی اتھارٹیز کے مطابق حملے میں ملوث دہشتگردوں کے قریبی دوست اور مقامی ہمسایوں نے انکشاف کیا ہے کہ حملہ آور بھارتی نژاد تھے۔ نوید اکرم کے والد کا تعلق بھارت سے تھا جبکہ اس کی والدہ اٹلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان تازہ انکشافات کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف لگائے گئے الزامات سراسر جھوٹ پر مبنی تھے۔ حملے میں 50 سالہ ساجد اکرم ہلاک ہوا جبکہ 24 سالہ نوید اکرم زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ نیو ساؤتھ ویلز پولیس نے واضح طور پر اعلان کیا کہ دونوں افراد کے پاکستان سے تعلق کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے اس واقعے کو واضح الفاظ میں دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور شدت پسند نظریات سے متاثر تھے، تاہم وہ کسی منظم بین الاقوامی دہشتگرد نیٹ ورک کا حصہ نہیں تھے۔ ان کے مطابق نوید اکرم کسی واچ لسٹ میں شامل نہیں تھا، اگرچہ 2019ء میں اسے محدود نگرانی میں رکھا گیا تھا مگر اس وقت اسے سنگین خطرہ تصور نہیں کیا گیا۔ اس افسوسناک واقعے کے دوران ایک ایسی حقیقت بھی سامنے آئی جسے نفرت اور تعصب پھیلانے والے عناصر نے جان بوجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔ شامی نژاد مسلمان شہری احمد الاحمد نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے حملہ آور کو قابو میں کیا، اسلحہ چھینا اور درجنوں قیمتی جانیں بچائیں۔ احمد الاحمد کی یہ بہادری نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پوری دنیا میں سراہی جا رہی ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز کے وزیراعلیٰ نے خود ہسپتال جا کر انکی عیادت کی، جبکہ مختلف عالمی رہنماؤں نے بھی انکے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔احمد الاحمد جو دو بچوں کے والد اور سڈنی میں ایک سادہ سی پھلوں کی دکان چلاتے ہیں، آج انسانیت، جرأت اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک روشن علامت بن چکے ہیں۔ ان کیلئے عالمی سطح پر فنڈ ریزنگ مہم شروع کی گئی، جس میں لاکھوں آسٹریلین ڈالر جمع ہوئے، جبکہ معروف کاروباری شخصیات نے بھی انعامات اور مالی معاونت کا اعلان کیا۔ سڈنی حملے کے بعد پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش دراصل ایک دانستہ حکمتِ عملی تھی، جس کا مقصد انتہا پسندی کے حقیقی اسباب، متاثرین کی مدد اور مسلمانوں کی پرامن شناخت سے توجہ ہٹانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے اور اسکے خلاف بھارت اور افغانستان میں سرگرم نیٹ ورکس کے شواہد عالمی سطح پر موجود ہیں۔عالمی سطح پر اب یہ بھی ضروری ہو چکا ہے کہ ایسے ممالک اور ریاستی بیانیوں کی بیخ کنی کی جائے جو اپنی دشمنی اور سیاسی مفادات کی خاطر بغیر کسی ثبوت کے کسی مذہب، قوم یا مسلمانوں کے خلاف جھوٹا اور زہریلا پروپیگنڈا پھیلاتے ہیں۔ دوسری جانب مودی کی قیادت میں بھارت کی عالمی سطح پر رسوائی ایک حقیقت بن چکی ہے جس کا تازہ مظاہرہ اس سال کئی محاذوں پر دیکھنے کو ملا۔ مودی حکومت نے ابتدائی دور میں ملک کے عوام کو ترقی اور عالمی عزت کا خواب دکھایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ انکے اقدامات نے بھارت کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچایا۔ ملک کے اندر مودی نے سماجی تقسیم کو ہوا دی، اقلیتوں اور اکثریتی طبقوں کے درمیان شناخت کے بحران پیدا کئے، مسلمانوں،سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو ایک ایسی کشمکش میں دھکیل دیا جو کسی بھی مستحکم معاشرے کیلئے خطر ناک ہے۔ یہی داخلی انتشار اب بیرونی دنیا میں بھارت کیلئے رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔ مئی میں پاکستان سے شکست فاش کے بعد بھارت ہر عالمی محاذ پر رسوائیاں سمیٹ رہا ہے۔ مودی کی خارجہ پالیسی کا المیہ یہ ہے کہ وہ بھارت کو عالمی طاقتوں کے ساتھ مؤثر شراکت دار کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہا۔ بھارت کی سفارتی پوزیشن کمزور ہوئی اور عالمی برادری میں اس کا وقار متاثر ہوا۔ مودی حکومت کی داخلی پالیسی نے بھی معاشرتی اتحاد کو کمزور کر دیا ہے۔ تقسیم در تقسیم کی بنیاد پر حکمرانی نے نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا بلکہ ملک میں بغاوت اور کشیدگی کے بیج بو دئیے۔ مودی کی قیادت میں بھارت کی یہ صورتحال اس بات کی دلیل ہے کہ وقت نے وہ تمام خدشات درست ثابت کر دئیے جو 2014 میں اس کی آمد کے فوراً بعد سامنے آئے تھے، یعنی بھارت کا گوربا چوف۔ عالمی سطح پر بھارت کے کردار پر پردہ گر چکا ہے اور وہ دہلی سے لیکر بین الاقوامی فورمز تک رسوا ہو رہا ہے۔ اگر مودی حکومت اپنی پالیسیوں میں اصلاح نہ لائی، تو بھارت کیلئے خطرات صرف داخلی نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی رسوائیوں کے گھڑے سے نکلنا اس کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔

تازہ ترین