کراچی (ذیشان صدیقی/اختر علی اختر) معاشی و سماجی تبدیلیاں ادب کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں، اردو تنقید و تحقیق“ کے موضوع پر نامور دانشوروں کا اظہار خیال۔ تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”اٹھارہویں عالمی اردو کانفرنس 2025۔ جشن پاکستان“ کے دوسرے روز”اردو تنقید و تحقیق“ کے عنوان سے پہلے اجلاس کا انعقاد آڈیٹوریم I میں کیا گیا ،جس میں عنبرین حسیب عنبر نے (اختر حسین رائے پوری،مشفق خواجہ، غلام مصطفی خاں) ، فاطمہ حسن( ضمیر علی بدایونی ، قمر جمیل ) ، ناصر عباس نیر( وزیر آغا ، جیلانی کامران) ، محمد حمید شاہد(محمد حسن عسکری ، سلیم احمد ) ، سید جعفر احمد(ممتاز حسین ، محمد علی صدیقی ) ، معین الدین عقیل( مولوی عبدالحق، جمیل جالبی ) اور روئف پاریکھ نے ( وحید قریشی ، شان الحق ) پر اظہار خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض فہیم شناس کاظمی نے انجام دیے۔ اس موقع پر عنبرین حسیب عنبر نے اختر حسین رائے پوری، غلام مصطفی خان اور مشفق خواجہ کے فکری کام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشی و سماجی تبدیلیاں ادب کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں جبکہ مضمون ”ادب اور زندگی“ اردو تنقید میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اختر حسین رائے پوری کے مطابق زندگی کی معاشی اور سماجی تبدیلی ادب پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اختر حسین پر شدت پسندی کے باعث تنقید ہوتی ہے۔ غلام مصطفی خان نے سو سے زائد تصانیف لکھیں، ان کی تحریر میں نقطہ شناسی پائی جاتی تھی جبکہ ان کی کتاب ”قرآن اور اقبال“ بے حد مشہور ہوئی۔ مشفق خواجہ سے متعلق انہوں نے کہاکہ مشفق خواجہ ایک اتھارٹی تھے لیکن ان کی تحریر میں اس کا اثر کبھی نظر نہیں آیا جو یقینا ان کی خصوصیت تھی۔ سیشن میں روف پاریکھ نے شان الحق حقی اور وحید قریشی کی تنقید و تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حقی صاحب نے لغت کے لئے سب چھوڑ دیا، ڈکشنری بورڈ کی ڈھائی لاکھ الفاظ کی لغت کی جلد میں اہم کام حقی صاحب کا تھا۔ وحید قریشی نے شبلی، حالی اور جالبی پر تنقید کی۔ اردو لغت بورڈ کا ذکر ہوا تو سیشن میں موجود فاطمہ حسن نے سوال اٹھایا کہ اردو لغت بورڈ اور وہ بائیس جلدیں کہاں ہیں؟ فاطمہ حسن کا کہنا تھا کہ اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ کو ان کی الگ حیثیت دلوانے کے لئے میں احمد شاہ صاحب سے کہوں گی کہ اس مطالبے کو اپنی سفارشات میں شامل کریں۔