انسان کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جب اُس کی سچائی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ حاسد اور سازشی لوگ اُس کے سچ کو چھپانے کے لئے سو طرح کے افسانے تراش لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ان افسانوں کے سحر میں گرفتار ہو کر سچ بولنے والوں پر خوب الزام بازی کرتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ سچائی کی طاقت غالب آتی ہے۔ افسانوں کا سحر ٹوٹتا ہے اور آخر کار سچائی کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ 10 اکتوبر 2014ء بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ پاکستان کی ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی کے لئے نوبیل امن انعام کا اعلان ہوا اور اُس کی شخصیت سے وابستہ کئے گئے سو طرح کے افسانے اپنے تخلیق کاروں کے لئے شرمندگی کا باعث بن گئے۔ جیسے ہی ملالہ کے لئے نوبیل امن انعام کا اعلان ہوا تو مجھے مبارکباد کے پیغامات موصول ہونے لگے۔ ابتداء میں مجھے حیرانگی ہوئی۔ قائداعظم یونیورسٹی کی ایک خاتون اُستاد سے میں نے مبارکباد وصول کرنے کے بعد پوچھا کہ آپ مجھے مبارک کیوں دے رہی ہیں؟ خاتون نے کہا کہ کچھ سال پہلے اُنہوں نے ملالہ یوسف زئی کو جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں میرے ساتھ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ میں نے وضاحت کی کہ کیپٹل ٹاک میں آنے سے پہلے ملالہ بی بی سی کے بلاگ پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ رہی تھی اور کچھ غیر ملکی اخبارات بھی اس کی طرف متوجہ ہو چکے تھے یہ محض اتفاق تھا کہ اُسے زیادہ توجہ کیپٹل ٹاک میں آنے کے بعد ملی۔ خاتون نے میری تاویلات پر ہنستے ہوئے کہا کہ جناب آپ جو بھی کہیں لیکن اُسامہ بن لادن سے ہمیں آپ ہی نے متعارف کروایا تھا اور ملالہ یوسف زئی سے بھی ہمارا تعارف آپ کے ذریعہ ہوا تھا، اُسامہ کو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا گیا اور ملالہ یوسف زئی امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین شخصیت بن چکی ہے۔ خاتون کا یہ جملہ مجھے کئی سال پیچھے لے گیا۔ اُسامہ بن لادن اور ملالہ کی شخصیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی تقابلی جائزہ بہت مشکل ہے لیکن ان دونوں کے انٹرویوز کے بعد مجھے جن حالات اور جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اُس میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
اُسامہ بن لادن کے ساتھ میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب میں سی این این پر لیری کنگ شو سے لے کر ایران کے پریس ٹی وی پر سینکڑوں مرتبہ دے چکا ہوں لیکن یہ سوال آج بھی ہر جگہ میرا پیچھا کرتا ہے۔ اکثر نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن کے ساتھ میری پہلی ملاقات گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد ہوئی تھی۔ مجھے بتانا پڑتا ہے کہ اُسامہ بن لادن کا پہلا انٹرویو میں نے 1997ء میں تورا بورا کے پہاڑوں میں لیا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب ملالہ یوسف زئی نے اس دنیا میں پہلی دفعہ آنکھ کھولی تھی۔ اُسامہ بن لادن کا دوسرا انٹرویو 1998ء میں قندھار میں لیا گیا اور اس انٹرویو سے پہلے مجھے قندھار میں طالبان نے گرفتار بھی کر لیا۔ گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ میرے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ تیسرا انٹرویو گیارہ ستمبر 2001ء کو نیو یارک اور واشنگٹن پر حملوں کے دو ماہ بعد کابل میں لیا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب کابل پر صبح شام امریکی طیارے بم برسا رہے تھے۔ اس انٹرویو پر پوری دنیا میں ایک طوفان آ گیا۔ امریکی صدر سے بار بار یہ سوال کیا گیا کہ اگر ایک پاکستانی صحافی اُسامہ بن لادن تک پہنچ سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں پہنچ سکتے؟ پاکستان کے کچھ اخبارات نے اس انٹرویو کو جعلی قرار دے دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ انٹرویو امریکی سی آئی اے کی سازش ہے۔ کسی نے کہا یہ انٹرویو آئی ایس آئی نے کرایا ہے۔ سی این این کے نِک رابرٹس نے انٹرویو کی ٹیپ اور تصاویر کے نیگیٹوز پر ماہرین کی رائے حاصل کر کے ایک خصوصی رپورٹ نشر کی جس میں انٹرویو کو بالکل اصلی قرار دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا اس انٹرویو کو ایک بہت بڑا صحافتی سکوپ قرار دے رہا تھا لیکن پاکستانی میڈیا میں مجھ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ سب سے مشہور الزام یہ تھا کہ نو گیارہ کے حملے بھی ایک یہودی سازش تھے اور اُسامہ بن لادن کا انٹرویو بھی ایک یہودی سازش تھی۔ آخر کار 2004ء میں اُسامہ بن لادن نے ایک ویڈیو پیغام میں اعتراف کر لیا کہ نو گیارہ کے حملوں کی منصوبہ بندی اُنہوں نے بذات خود کی تھی۔ 30؍ نومبر 2009ء کو امریکی سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سربراہ جان کیری نے ایوان میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ گیارہ ستمبر 2001ء کو اُسامہ بن لادن خوست میں تھا اور 8نومبر 2001ء کو وہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ہمراہ حامد میر کو کابل میں ملا۔ یہ پراپیگنڈہ بھی دم توڑ گیا کہ میں نے اُسامہ کا انٹرویو پاکستان میں کیا لیکن دنیا کو بتایا کہ وہ افغانستان میں ہے۔ پھر 2مئی 2011ء آیا۔ امریکیوں نے اُسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں تلاش کر لیا۔ اُسامہ نے گرفتاری دینے کی بجائے مزاحمت کی اور امریکیوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔ امریکی اُس کی لاش ساتھ لے گئے اور پھر لاش کے ساتھ بھاری پتھر باندھ کر اُسے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دیا جانے لگا۔ دشمنوں نے پاکستان کو خوب بدنام کیا لیکن پھر 10؍ اکتوبر 2014ء آیا اور دنیا کو پتہ چلا کہ اب پاکستان کی پہچان اُسامہ بن لادن نہیں بلکہ ملالہ یوسف زئی ہے۔
ملالہ سے میری پہلی ملاقات فروری 2009ء میں ہوئی۔ یہ وہ دن تھا جب سوات میں ہمارے ساتھی موسیٰ خان خیل کو شہید کر دیا گیا تھا۔ سوات پر طالبان کا قبضہ تھا۔ بچیوں کے اسکول بند کئے جا چکے تھے اور ملالہ یوسف زئی اپنا اسکول بند ہونے پر گل مکئی کے نام سے احتجاج کر رہی تھی۔ محبوب علی کے توسط سے میری ملاقات ضیاء الدین یوسف زئی سے ہوئی اور انہوں نے کہا کہ آج اُنکی بیٹی اپنے اصلی نام اور چہرے کے ساتھ کیپٹل ٹاک میں آنا چاہتی ہے۔ اُسی شام ملالہ یوسف زئی کیپٹل ٹاک میں آئی اور صرف ایک گھنٹے میں پورے پاکستان کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ ملالہ کی شہرت کے ساتھ ہی اُسکے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہو گیا۔ 2010ء میں وہ ایک دفعہ پھر کیپٹل ٹاک میں آئی تو مجھے اُس کی سلامتی کے متعلق فکر لاحق ہونے لگی۔ اُس نے بہت کم عمری میں بچیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی شروع کی اور اُس کے بارے میں کئی طرح کے سازشی مفروضے گھڑ لئے گئے۔ انہی سازشی مفروضوں کے باعث اُس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ کئی دن تک پشاور اور راولپنڈی کے اسپتالوں میں زیر علاج رہنے کے بعد برطانیہ بھجوا دی گئی۔ ایک طرف ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دیا گیا دوسری طرف مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں بھی اس ڈرامے کا حصہ ہوں۔ جب میں نے ملالہ کا دفاع کیا تو میری گاڑی کے نیچے بم نصب کر دیا گیا۔ اپریل میں مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ کچھ ہفتے کراچی اور اسلام آباد میں زیر علاج رہنے کے بعد میں برطانیہ گیا تو میری ملالہ سے ملاقات ہوئی۔ اب وہ صحت مند تھی لیکن اُسے قریب سے دیکھ کر میں اپنے زخم بھول گیا۔ اُس کے چہرے پر زخموں کے اثرات باقی ہیں۔ اُس کا چہرہ کیسے ٹھیک کیا گیا اور اب وہ کیسے بولتی اور سنتی ہے؟ یہ سب لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں لیکن ملالہ کی ہمت نے پوری دنیا میں صرف اُس کے بہادر والدین کا نہیں بلکہ زخموں کی ماری پختون قوم کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی روشن کر دیا ہے۔ آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ملالہ واپس پاکستان کیوں نہیں آتی؟ ملالہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آئے گی۔ مجھے یقین ہے کہ واپس آ کر وہ سیاست کرے گی۔ سازشی مفروضے اور افسانے کبھی اُس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے لیکن وہ اپنے کردار کی سچائی سے ان افسانوں کو ہوا میں اڑاتی ہوئی پاکستان کا روشن مستقبل بنے گی۔ دس سال کے بعد آج کے کئی سیاستدان منظر سے غائب ہو چکے ہوں گے اور پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہو گا۔ اُسامہ سے ملالہ تک میرا سفر دراصل پاکستان کا سفر ہے۔