• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے اور رقص اعضاء کی شاعری، البتہ یہ اس ملک میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ لامحالہ انتہاپسند رویوں پر مبنی جو کلچر فروغ پارہا ہے وہ ہمارے معاشرے کی تمام شائستہ اقدار و روایات کو نگلتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، ہمارا حال چونکہ بے حال ہے اس لئے اب ماضی کی حسین یادیں ہی ہیں جو ہمیں تروتازہ رکھنے یا محرکات کو مہمیز دینے کا باعث بنتی ہیں۔ ایک دور تھا جب پاکستان و افغانستان کی پشتو کی سب سے مقبول گلوکارہ میر من قمر گلہ کی ہر کیسٹ ہمارے پاس موجود ہوتی، مادام گلنار بیگم، استاد ناشناس، عبداللہ مقری، سردار علی ٹکر، بخت زمینہ کو سنے بغیر گزرتے تمام لمحے بے کیف گزرتے۔ اردو و پنجابی گیت سنگیت کا حصہ بقدر جثہ ہوتا۔ اب تو پورا معاشرہ ضیاء صاحب کی سیاسی وراثت کے رحم و کرم پر ہے، سُر و تال کی عیاشی کون کرے؟! ناچیز انٹرنیٹ کو اپنی مزدوری کی حد تک جانتا ہے، فیس بک پر ہوں لیکن Friend RequestsکوConfirm کرنے سے لاچار!! محوِرقص خوبرو شہناز، مادام گلنار بیگم کی آواز میں کہتی ہیں۔اے جاناں! دیس و جوانی پر آئے بہار کے بھی کچھ تقاضے ہیں، بیر کے پیڑ پر چلے آئو!! پھولوں کی مالابناتے ہیں اور جھولے کے مزے بھی لیتے ہیں!! میں ابھی اس گیت سے لطف اندوز ہی ہو رہا تھا کہ کراچی لانڈھی سے اے این پی کے یاسر کنڈی کا فون آیا، کہنے لگے کہ اجمل خٹک باباکی پانچویں برسی کی یاد دہانی کے لئے فون کیا ہے، میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مہینہ تو یاد تھا لیکن تاریخ فراموش کر بیٹھا تھا۔ سوچنے لگا کہ کیا ہم اپنے اکابر کو یونہی بھلا بیٹھیں گے؟!!
البتہ اس یاد دہانی سے نوجوانوں میں اپنے اسلاف سے تعلق کے جذبے پر طمانیت ہوئی۔ گلنار بیگم کی مُدھر آواز اگرچہ کانوں میں رس گھول رہی تھی لیکن میں تخیل کی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ گلنار بیگم کو اجمل خٹک صاحب ہی تو ریڈیو پاکستان لائے تھے۔کیا باغ و بہار و ہمہ جہت شخصیت تھے خٹک صاحب..... شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مترجم، محقق، نقاد، ماہر لسانیات، ڈرامہ نگار، دانشور، سیاست دان۔ وہ نہ صرف ایک ایسے درویش سیاستدان تھے جنھوں نے کوچہ سیاست میں محض نیک نامی کے ماسوا کچھ نہیں کمایا، بلکہ یہ اعجاز ان ہی کو حاصل ہے کہ وہ جس شعبے میں بھی گئے،داستاں چھوڑ آئے۔ 1938ء میں خوشحال خان خٹک کے مزار پر جب مشاعرہ پڑھنے کے لئے آئے تھے، تو اتنے چھوٹے تھے کہ کرسی پر کھڑے ہو کر اپنی نظم سنائی ، پھر آپ کا قد آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا اورشاعری، ادب و تاریخ پر26 مایہ ناز تصانیف کے علاوہ مختلف موضوعات پرسینکڑوں مقالے اورمضامین رقم کئے۔ جناب سلیم راز کے مطابق پشتو نظم میں ان سے بڑا شاعر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ اجمل خٹک ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ’’اولسی ادبی جرگہ‘‘ کے فعال ممبر اور فلسفہ مارکسزم کے بے بدل مبلغ تھے۔ آپ پر رجعت پسندوں نے کفر کے فتوے بھی لگائے،لیکن ان کی پروا نہ کرتے ہوئے آپ نے صبر و استقلال سے قوم میں ڈکٹیٹروں اوراستحصالی قوتوں کے خلاف شعور اجاگرکرنے کیلئےسیاست،صحافت اور شاعری کو وسیلہ بنایا۔ پشاور میں اجمل خٹک اور راج کپور ایک ہی اسکول کے طالب تھے۔ اجمل خٹک خدائی خدمتگار تحریک کے بانی باچا خان سے متاثر اور ان کے مقلدتھے۔ 1943ء میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں حصہ لیا اور اسی سال محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہانہ تنخواہ پر معلم بھرتی ہوئے۔ اس دوران آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز، منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے اور فارسی میں ایم اے کیا۔ یکم اپریل 1948ء کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی۔ 1953ء میں آپ نے شادی کی اور اسی سال اپریل میں گرفتار ہوئے،چار مہینے بعد رہا ہوئے لیکن اکتوبر میں پھر گرفتار کرلئے گئے۔ سیاسی نظریات پر سمجھوتے نہ کرنے کے باعث آپ ریڈیو پاکستان سے فارغ کردیئے گئے,1956ء میں روزنامہ بانگ حرم کے ایڈیٹر بن گئے۔آپ اپنے وقت کے مقبول اخبار انجام سمیت کئی اخباروں کے ایڈیٹر رہے۔آپ یگانہ روزگار تھے۔ انگریزی، روسی، ہندی، فارسی، جرمن اور عربی پر عبور تھا۔ بنگلہ دیش کے ادیب قوی جیسم خان کے لئے آپ نے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی تھی، شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی سے دوستی تھی۔ نصیر الدین شاہ خصوصی طور پر ان سے ملاقات کیلئے کابل گئے تھے، اگرچہ وہ کمیونسٹ پارٹی میں بھی رہے، ، لیکن آپ اشتراکیت کو ایسا فکری مجموعہ نہیں سمجھتے تھےجس میں دین کی گنجائش نہ ہو،آپ نے ہر محاذ پر عوامی حقوق کیلئے آواز اٹھائی، جس کی پاداش میں آپ کی زندگی ہمیشہ زیر عتاب رہی۔آپ اپنے وقت کی سب سےبڑی ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) کے سیکرٹری جنرل رہے اور پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ہری پور اور مچھ جیل میں کئی سال تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، آپ بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ پولیس نےگرفتارکیا اورہتھکڑیاں لگاکر تشدد کرتے ہوئے تلاشی کیلئے جب گھر لائے، تو میری والدہ نے یہ حالت دیکھ کر پولیس والوں کو بددعائیں دینا شروع کیں،جس پر ان ظالموں نے میری والدہ کو بالوں سے پکڑکر چارپائی سے نیچے گرایا اور زمین پر گھسیٹتے رہے،یہ واقعہ سناتے ہوئے وہ بچوں کی طرح رونا شروع کردیتے تھے۔ 1975ء میں لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے پر فائرنگ ہوئی، جس میں خان عبدالولی خان بال بال بچ گئے تھے، خون میں لت پت کئی نوجوانوں نے اجمل خٹک کی گود میں دم توڑ دیا،اور یوں دل برداشتہ ہو کر وہ افغانستان چلے گئے اور 13 سال کی جلاوطنی کے بعد 1988ء میں پاکستان چلے آئے۔ وہ 1988ء میں رکن قومی اسمبلی اور بعد ازاں ممبر سینیٹ بنے۔ وہ خان عبدالولی خان کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر رہے۔ ولی خان اور اجمل خٹک ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے، اجمل خٹک اسٹیج پر تقریر کرنے آتے، تو ابتداء میں کہتے،میرے رہبر،میرے یار ولی خان … 1991 کا ذکر ہے ،یہ ناچیزصبح صبح ایم پی اے ہاسٹل پشاورمیں سابق وزیر واجدعلی خان کے کمرے میں پہنچا،واجدعلی خان اپنے حلقے سوات میں تھے،وہاں موجو د ہمارے دوست عبیداللہ یوسفزئی اور محمد علی شاہ(شاہ صاحب) نے بتایا کہ لنڈی کوتل میں جلسہ ہے آپ بھی چلیں،قافلہ بلور ہائوس سے روانہ ہونا تھا۔ خان عبدالولی خان سمیت اے این پی کے رہنما موجودتھے،نوشہرہ سے اجمل خٹک کے آنے کا انتظار کیا جارہا تھا،اے این پی کے ’وڈیرے ‘ روانہ ہونے پر اصرار کررہے تھے،خان صاحب کہتے خٹک صاحب نہیں پہنچے،بالآخر’ وڈیروں‘ کے پُر زور اصرار پہ قافلہ روانہ ہوا،کچھ تاخیر سے خٹک صاحب جلسہ گاہ پہنچے، ’وڈیرے‘ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے،لیکن جب ولی خان صاحب اس درویش کے استقبال کے لئےکھڑے ہوئے تو باقی بھی بادل نخواستہ ایسا کرگئے، جلسے کے اختتام پر خان صاحب اپنی گاڑی کے قریب کھڑے خٹک صاحب کے آنے کا انتظار کرتے رہے،جب وہ آئے تو پوچھا، خیریت تو تھی...!خٹک صاحب کہنے لگے راستے میں سوزکی( پک اپ) خراب ہوگئی تھی!!ولی خان صاحب نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا،اپنے یار کواگلی نشست پر بٹھایا، اورخود پچھلی نشست پر بیٹھ گئے... بلا مبالغہ اجمل خٹک جیسے صاحبِ کردار پاکستانی سیاست میں نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی زندگی کا اثاثہ وہ درد و غم ہیں جو انہوں نے عوامی آدرشوں کی تکمیل کی خاطر سیاست میں پائے۔ وہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں مراجعت فرما گئے کہ نہ ان کا بینک بیلنس تھا اور نہ پختہ مکان!
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تازہ ترین