• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جن کا مداوا وقت بھی نہیں کرسکتا۔ ایک ایسا ہی غم کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی میرے دل میں تازہ ہے۔ یہ غم ماں سے جدائی کا ہے جو کچھ سال قبل ہم سے جدا ہوگئیں اور گزشتہ دنوں اُن کی برسی کے موقع پر اُن سے جدائی کا غم ایک بار پھر تازہ ہوگیا۔میری والدہ ایک عظیم شخصیت کی مالکہ اور نماز روزے کی انتہائی پابند تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی حج و عمرے کئے، اُن کی زندگی میں میرا اور میرے بڑے بھائی کا یہ معمول تھا کہ ہمارے دن کا آغاز ماں کی دعائوں سے ہوتا تھا۔ آج ان کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور ہمارا یہ روز کا معمول ہے کہ ہم اپنی ہر صبح کا آغاز اپنی والدہ کی قبر پر حاضری سے کرتے ہیں۔ آج ہم جو کچھ بھی ہیں، اپنی والدہ کی دعائوں کی بدولت ہیں، اُن کی زندگی میں ہمیں جب بھی کبھی کوئی مشکلات پیش آتیں تو والدہ ہمارے لئے دعائیں کرتیں اور ہماری مشکلات و پریشانیاں دور ہوجاتی تھیں۔ آج وہ دنیا میں نہیں رہیں لیکن ہمیں کبھی بھی کوئی مشکلات پیش آتی ہیں تو ہم اُن کی قبر پر جاکر دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماں محض ایک لفظ ہی نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے جسے سنتے ہی ٹھنڈی چھائوں اور تحفظ کا احساس اُجاگر ہوتا ہے اور ذہن میں عظمت کی دیوی اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور آتا ہے۔ ماں کی عظمت کا اِس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ اللہ جب انسان سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اپنی محبت کو ماں سے تشبیہ دے کر فرماتا ہے کہ ’’میں انسان سے 70 مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کسی عورت نہیں بلکہ ماں کے قدموں تلے رکھی ہے۔ دین اسلام ہمیں سیدہ مریم ؑ، سیدہ خدیجتہ الکبریٰؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ جیسی عظیم مائوں کی مثالیں دیتا ہے۔ اسلام میں جہاں ایک طرف والدین کو اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اولاد کو بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے اور اُن کا سہارا بننے کا درس دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق ہم والدین کی خدمت و اطاعت کرکے جنت حاصل کرسکتے ہیں اور جنت بھی ایسے لوگوں کی منتظر ہے جنہوں نے دنیا میں اپنے والدین بالخصوص ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی ہو۔
ماں جیسی عظیم ہستی کی دعائوں کی ضرورت صرف ہم جیسے گناہگاروں کو ہی نہیں بلکہ پیغمبروں کو بھی رہی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام جنہیں اللہ تعالیٰ سے براہ راست کلام کا شرف حاصل تھا، کی والدہ محترمہ جب دنیا سے رخصت ہوئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام انتہائی رنجیدہ حالت میں اللہ تعالیٰ سے کلام کیلئے کوہ طور پر چڑھنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا۔ ’’اے موسیٰ (علیہ السلام) اب تم ذرا سنبھل کر میرے پاس آنا کیونکہ تمہارے لئے دعائیں کرنے والی ہستی اب دنیا میں نہیں رہی، اس سے قبل جب تم میرے پاس آتے تھے تو تمہاری ماں سجدے میں جاکر تمہارے لئے دعائیں کیا کرتی تھی۔‘‘ حج و عمرے کے دوران سعی کے چکر بھی ماں کی اپنی اولاد کیلئے مثالی محبت کی یاد تازہ کرتے ہیں جو سیدہ بی بی حاجرہؓ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کیلئے پانی کی تلاش میں لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماں کی اپنی اولاد کیلئے بے تابی اور تڑپ اتنی پسند آئی کہ اُس نے تاقیامت اِسے حج و عمرے کا اہم رکن قرار دے دیا تاکہ دنیا کو ماں کی عظمت و محبت کا احساس ہوسکے۔
میں گزشتہ کئی سالوں سے کالم تحریر کررہا ہوں، اس دوران میں نے بے شمار کالمز لکھے مگر کچھ سال قبل والدہ کی وفات پر لکھے گئے کالم نے لوگوں میں جو پذیرائی حاصل کی، وہ آج تک کسی دوسرے کالم کو نہیں مل سکی۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ میرا کالم پڑھنے کے بعد کئی لوگوں کی اپنی ماں کے ساتھ رویئے میں تبدیلی آئی۔ بیرون ملک مقیم میرے ایک جاننے والے جو کئی سالوں سے اپنی والدہ سے ملاقات کیلئے پاکستان نہیں آسکے تھے، نے بتایا کہ وہ کالم پڑھتے ہی وطن واپس آئے اور والدہ کے پیروں کو پکڑ کر اپنے رویئے کی معافی مانگی۔ کالم کے حوالے سے مجھے ایک ایسی ای میل بھی موصول ہوئی جس میں تحریر تھا کہ ’’میں نے اپنی بیوی کے کہنے پر ماں کو چھوڑ دیا تھا جو تنہا رہتی تھیں مگر آپ کے کالم نے میرے دل پر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ اب میں نے والدہ سے اپنے رویئے کی معافی مانگ لی ہے اور وہ میرے ساتھ ہی رہتی ہیں۔‘‘ اسی طرح بیرون ملک مقیم کچھ ایسے لوگ جو دنیاوی کاموں میں اتنے مصروف ہوگئے تھے کہ اُنہیں کئی ہفتوں سے اپنی ماں کو فون کرنے تک کا ٹائم نہیں مل رہا تھا، آج بلاتعطل اپنی والدہ کو فون کرکے اُن کی دعائوں سے مستفید ہورہے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ وقت بڑا مرہم ہوتا ہے جو بڑے بڑے زخم مندمل کردیتا ہے مگر والدہ کی جدائی کا صدمہ آج بھی میرے دل میں تازہ ہے، ان کی وفات کے بعد میرا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب اُن کا خیال ذہن میں نہ آیا ہو۔ میں وہ وقت کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب میری والدہ اسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں اور میں اُن کے بیڈ کے قریب بیٹھا اُن کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ وہ عظیم ہستی ہے جس نے اپنے خون کی آبیاری سے ہم ننھے پودوں کو قد آور اور مضبوط درخت بنایا لیکن آج وہ خود اتنی کمزور اور ناتواں ہوگئی ہے کہ اپنی زندگی کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہی۔ میں نے جب والدہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تو یاد آیا کہ کبھی انہی ہاتھوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا اور انہی ہاتھوں سے وہ مجھے نوالے بناکر کھلایا کرتی تھیں مگر آج یہ ہاتھ بے جان اور ٹھنڈے لگ رہے تھے۔ ابھی میں ان سوچوں میں گم تھا کہ اچانک والدہ کی سانسیں اکھڑنے لگیں، پھر انہوں نے آخری بار اپنی آنکھیں کھولیں اور بیڈ کے اطراف موجود اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر آخری نظر ڈالنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھ کر ابدی نیند سوگئیں۔
میں اپنی والدہ کی وفات کے بعد آج خود کو بہت تنہا محسوس کررہا ہوں۔ میں اُن تمام لوگوں جن کی مائیں زندہ ہیں، سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے والدین بالخصوص ماں کی اُن کی زندگی میں ہی قدر کریں، اُنہیں خوش رکھنے کی کوششوں میں لگے رہیں اور اپنی ذات سے کوئی تکلیف نہ پہنچنے دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا یہی آسان طریقہ ہے اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی مضمر ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ میری والدہ محترمہ کی برسی پر اُن کیلئے دعائے مغفرت کریں۔
ہم ہی میں رہتے ہیں وہ لوگ کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہ مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے





.
تازہ ترین