• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلیم گیلانی۔ ریڈیو کا ایک عہد,,,,قصہ مختصر…عظیم سرور

25دسمبر کی صبح جب رانی نے اطلاع دی کہ ابّا ہم سے رخصت ہو گئے تو ذہن کے بے شمار چینلز پر ان گنت ریڈیو پروگرام گونج اٹھے۔ ریڈیو پاکستان کا ایک پورا عہد فلیش بیک کی طرح ذہن کے ریکارڈ پر پلے ہو گیا۔ سلیم گیلانی صاحب کو میں نے ریڈیو پاکستان میں ہمیشہ تیز تیز قدموں سے چلتے دیکھا تھا لیکن بیگم صاحبہ نے بتایا کہ دوسری دنیا کو جانے کے لئے وہ آخری بار اسپتال بہت آہستہ قدموں سے گئے۔
اکتوبر کے مہینے میں حکومت پاکستان نے گیلانی صاحب کی براڈ کاسٹنگ کی خدمات کے پیش نظر ان کے لئے ہلال امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے مجھے فون پر اس کے بارے میں بتایا تھا۔ میں نے مبارکباد دی تو وہ بہت خوش ہوئے تھے۔ ان کو یہ اعزاز 23مارچ کو ملنا تھا لیکن اب وہ اس تقریب سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کی تاریخ میں دو عہد سب سے نمایاں ہیں۔ ایک بخاری صاحب کا عہد، جس میں اس ملک کے لئے براڈ کاسٹنگ کے دائرہ کار کا تعین ہوا۔ ادب، فن اور ثقافت کے شعبوں کا ریڈیو پاکستان سرخیل بن گیا۔ بخاری صاحب نے ریڈیو پاکستان کے لئے جو راہ متعین کی اس پر وہ تقریباً 40 سال تک گامزن رہے۔
سلیم گیلانی صاحب نے اپنے ریڈیو کیریئر کا آغاز 50 کی دہائی میں کیا۔ پہلے نیوز پھر پروگرام سے وابستہ ہوئے۔ کراچی سے لاہور گئے تو وہاں انہوں نے ”جشن بہاراں“ کی روایت کا آغاز کیا۔ ایک ہفتے تک ملک بھر کے موسیقی کے فنکاروں کا جشن ریڈیو لاہور کے سبزہ زار پر ہوتا اور یہ پورے ملک میں نشر ہوتا تھا۔ لاہور سے وہ تین سال کے لئے وائس آف امریکہ میں چلے گئے، وہاں سے آئے تو ٹرانسکرپشن سروس کے ڈائریکٹر بنے۔
ٹرانسکرپشن سروس میں آ کر انہوں نے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے Sound Archive کی بنیاد ڈالی۔ میں اسے آواز خزانہ کہا کرتا تھا۔ اس آواز خزانے میں ملک کے قائدین کی تقاریر محفوظ کی گئیں۔ علمائے دین، ادباء اور شعراء کی آوازوں میں ان کی نگارشات ریکارڈ ہوئیں۔ تحریک پاکستان کے لیڈروں اور کارکنوں کی آوازوں میں جدوجہد آزادی کی داستانیں ٹیپ پر آئیں، پھر کلاسیکی موسیقی، لوک موسیقی اور ادبی موسیقی کے تمام فنکاروں کے فن پارے ریکارڈ کر کے محفوظ کیے گئے۔ ہندوستان میں تھیٹر میں آغا حشر کاشمیری سے لے کر استاد جھنڈے خان تک کا نمایاں حصہ تھا چنانچہ تھیٹر کی موسیقی کو دوبارہ ریکارڈ کر کے اس آواز خزانے میں شامل کیا گیا۔ ریڈیو پاکستان اپنی آوازوں کے اس خزانے پر بلاشبہ فخر کر سکتا ہے اور یہ گیلانی صاحب کا کارنامہ تھا۔
انہوں نے ٹرانسکرپشن سروس کے ذریعے پاکستان کے بارے میں معلوماتی پروگرام دنیا کے دوسرے ملکوں کو بھیجنے کا اہتمام کیا۔ قومی ایّام میں یہ پروگرام دنیا کے 50 ممالک کو 8 مختلف زبانوں میں ریکارڈ ہو کر جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اس سروس میں موسیقی کے کئی تجربات بھی کیے گئے۔
دنیائے موسیقی میں گیلانی صاحب نے غزل کی گائیکی کی ایک نئی صنعت روشناس کرائی جو آج پاکستانی غزل کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 1960ء کی دہائی سے پہلے غزل کی گائیکی کے کئی انداز تھے۔ ان تمام انداز میں غزل کے اشعار راگ کے تابع ہوتے تھے۔ ہر شعر اور مصرعے کی ادائیگی میں گلوکار اس راگ کے مطابق بنائی گئی دھن کا اسیر ہوتا تھا۔ یوں نغمے میں غزل کی روح اجاگر نہ ہوتی تھی۔ گیلانی صاحب نے ٹرانسکرپشن سروس میں مہدی حسن جیسے فنکارکو کنٹریکٹ دیا۔ پھر انہوں نے اس فنکار کی بے مثال صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ مہدی حسن کو کلاسیکی موسیقی پر عبور حاصل تھا، قدرت نے ان کو خوبصورت آواز دی تھی جس کو ریاض کے ذریعے خوب چمکایا گیا تھا۔ بقول گیلانی صاحب مہدی حسن کے گلے کے تمام Groove بدلتے تھے اور سب کے سب سر میں تھے۔ اسی خوبی پر لتا منگیشکر نے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ گیلانی صاحب نے مہدی حسن کو غزل کی گائیکی کے اس نئے انداز کی آگہی دی اور بتایا کہ کس طرح الفاظ کو جگانا اور مصرعوں کا تاثر ان کے معنوں کے لحاظ سے بنانا ہے۔ اس انداز پر ٹرانسکرپشن سروس میں جب پہلی بار فیض صاحب کی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے“ ریکارڈ ہوئی تو پورے پاکستان میں یکایک دھوم مچ گئی۔ اس زمانے میں استاد برکت علی خان، علی بخش ظہور، اعجازحضروی اور نہال عبداللہ جیسے غزل گانے والے فنکار موجود تھے لیکن مہدی حسن اس نئے انداز کے ساتھ سب سے بلند ہو گئے اور جب غزل کا یہ انداز ہندوستان پہنچا تو انہوں نے اس گائیکی کو ”پاکستانی غزل“ کا نام دیا۔ آج یہ انداز اور انگ ساری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے۔
ریڈیو کے پروڈیوسر کی ذہانت اپنے سامعین کے لئے نئی نئی چیزوں کو سجا بنا کر پیش کرتی ہے۔ گیلانی صاحب سہون شریف کے میلے کی ریکارڈنگ پر گئے، وہاں انہوں نے ایک فنکار کو سنا جو المونیم کے لوٹے پر ٹکا بجا کر گا رہی تھی۔ گیلانی صاحب نے اس فنکار کو کراچی آنے کی دعوت دی۔ ایک سال بعد وہ کراچی آئی تو اس کے نغموں کی ریکارڈنگ کی۔ ان نغمات پر مبنی ایک خاص پروگرام ”نغمہٴ صحرا“ بنایا اور اس فنکار کو ریشماں کا نام دیا۔ نغمہٴ صحرا دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں گونجنے لگا۔
1965ء کی جنگ کے موقع پر جنگ کے دوسرے ہی دن گیلانی صاحب نے بھارتی حملہ پسپا ہونے پر خطہٴ لاہور کو خراج تحسین پیش کیا۔ مشہور نغمہ ”خطہٴ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام“ لکھے جانے سے ریکارڈ ہونے تک صرف 75 منٹ میں بنا اور اس کے ساتھ ہی ملک میں با مقصد ملی نغموں کا آغاز ہو گیا۔ گیلانی صاحب نے قومی نغموں کو Cliches سے ہٹا کر حالات و واقعات سے ہم آہنگ کر کے با مقصد بنا دیا چنانچہ جنگ کے دنوں میں ”اپنی قوت اپنی جان“ سے لے کر ”یہ دس کروڑ انسان“ تک سیکڑوں نغمے بنے۔ پھر جب 1972ء میں بھٹو صاحب نے عوامی انقلاب اور ملک کی تعمیر نو کی بات کی تو گیلانی صاحب نے ”وطن کو ہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے“ اور ”یہ فیصلہ ہے وطن کو سجا کے دم لیں گے“ جیسے نغمے تحریر کیے۔ سیلاب آیا تو ہمت بندھانے والے نغمے تخلیق ہوئے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس 74 کے مرحلے پر ”اتحاد ملت اسلامیہ پائندہ باد“ جیسے نغمے بنائے گئے۔
گیلانی صاحب مکمل براڈ کاسٹر اور بہترین منتظم تھے۔ انہوں نے حج بیت اللہ کی کوریج میں جیسے پروگرام پیش کیے وہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ پھر انہوں نے ”درود شریف“ کو کورس کے انداز میں ریکارڈ کروا کر صبح کے پروگراموں میں نشر کرانے کا اہتمام کیا تو پورے پاکستان میں یہ خوبصورت انداز پسند کیا گیا۔
گیلانی صاحب کا ایک کارنامہ مشہور زمانہ نو مسلم فرتجوف شوان (جو مسلمان ہو کر شیخ عیسیٰ نور الدین احمد کہلائے) کی کتاب Understanding Islam کا ترجمہ ”تفہیم الا سلام“ ہے۔ جن لوگوں نے فلسفی شوان کی یہ کتاب پڑھی ہے وہ اس ترجمے کی داد دیں گے کہ کتنی مشکل کتاب کو گیلانی صاحب نے آسان بنا دیا۔ گیلانی صاحب نے سیرت پر ایک کتاب ”بلال“ تحریر کی جس میں سیرت پاک، حضرت بلال کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ گیلانی صاحب نے فیض احمد فیض کی کئی نظموں کے ترجمے انگریزی زبان میں کیے اور ضیاء جالندھری کی نظموں کے ترجمے جب انہوں نے امریکن سینٹر اسلام آباد کی تقریب میں پڑھے تو انگریزی داں طبقوں نے ان کے فن کو بے پناہ داد دی۔
ڈائریکٹر جنرل بننے کے بعد 1987ء میں گیلانی صاحب نے ریڈیو کو ”نئی طرز نشریات“ کے ذریعے نئی زندگی دی۔ ریڈیو پورے ملک میں ایک بار پھر اس طرح مقبول ہوا کہ سامعین کی ڈاک بلا مبالغہ بوریوں میں بھر کر آنے لگی۔ وہ نئی طرز نشریات کو ترقی دے کر اسے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے لیکن پھر وہ ریٹائر ہو گئے۔ آج ملک بھر کے F.M اسٹیشن ریڈیو پاکستان کی نئی طرز نشریات کے ابتدائی زمانے کی وہ تصاویر ہیں جو 1987ء میں پیش ہوئی تھیں۔ گیلانی صاحب زندہ ہوتے تو ہمیں 2008ء والی نشریات سننے کو ملتیں لیکن گیلانی صاحب کا عہد تو 1989ء میں ختم ہو گیا تھا۔ یہ عہد ایک سنہری آواز کا خزانہ تھا۔
تازہ ترین