• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانا دینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ارض پر اسلام کے آفاقی و غیر فانی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دوسری مملکت خداداد ہے، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے، اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، پاکستان کے حصول کیلئے ہمارے آبائو اجداد کو آگ اور خون کے جس دریا سے گزرنا پڑا اور جو ناقابل فراموش قربانیاں دینا پڑیں، وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ قومیں اپنے نظریات کی بنا پر ہی زندہ رہتی ہیں، اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کر دینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر دینے والوں کا وجود کائنات زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں۔ پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم! ان جذبوں کو نوجوان نسل کے دل و دماغ میں راسخ کرنے، وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے اور اس کے حصار کو مستحکم تر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنالیں اور کسی لمحہ بھی اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔
قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں 23مارچ کا دن قومی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداداد کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم ’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغاز کرے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے۔ کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کیلئے آئین کی بالادستی اور حکمرانی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عمل داری کے معاملے میں 102ملکوں میں سے 98ویں نمبر پر ہے۔ قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن، غربت، جہالت، عدم توازن اور انتہاپسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کا ادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیردار، وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیر اور قومیت، لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات ابھار کر تقسیم در تقسیم رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا قیام کسی وقتی جوش یا جذباتی سوچ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی رہنمائی میں قائم ہونے والی مدینہ منورہ کی اس اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ اور سوچ کار فرما تھی جس میں ایک عام شہری کو بھی حاکم وقت کے برابر حقوق حاصل تھے۔ امن و امان کی صورتحال یہ تھی کہ سونے چاندی سے لدی پھندی ایک عورت بلا خوف و خطر صنعا سے حضر موت تک سینکڑوں میل کا سفر تن تنہا طے کرتی تھی اور کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ فرمانروائے مملکت عوام کی خبر گیری کیلئے راتوں کو گشت کرتے تھے اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کیلئے خدمت کے جذبے سے سرشار، عوام کے خادم، اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے تھر تھر کانپنے والی ریاستی مشینری ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتی تھی۔
پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ بقول قائداعظمؒ ’’ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قریباً 14خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستور کیسا ہو گا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپنا سکیں۔ جب تک قوم بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی، قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
دستور پاکستان میں عوام کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ، ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیردار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی۔ ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتی ہے، اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈت آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کی سیاست کا مرکز و محور ہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے۔ ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حقدار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی کو فائق نہیں سمجھا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے ہمیں اس کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود اسی بنیاد سے وابستہ ہے۔



.
تازہ ترین