• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورس کے وفادار ہاتھی کی بھولی بسری داستان ! ....آخر کیوں؟…رؤف کلاسرا

مورخ بھی ہمارے خطے کے بہادر جنگجوؤں کے خلاف کس طرح کا تعصب پالتے چلے آئے ہیں یہ ہمیں آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ پوٹھوہار کے ایک سپوت مہاراجہ پورس نے آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے ایران کے بادشاہ دارا کی مدد کیلئے اپنے لڑاکا ہاتھیوں سمیت ایک بڑی فوج مقدونیہ کے سکندر کے خلاف لڑنے کیلئے بھیجی تھی ۔ ہماری نسلوں کو وہ تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے جو حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے مورخوں نے لکھی۔ ہمارے خطے کے لوگ دارا کو تو جانتے ہیں اپنے ہیرو کو نہیں۔ حالانکہ دارا سکندر کے مقابلے میں میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا ۔ فردوسی نے اپنے ایک شعر میں اس سارے منظر کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ ”ایرانی لومڑ اور رومن شیر تھے اور تمام سرداروں نے سراٹھانے کے بجائے سر جھکانے کا مشورہ دیا“۔ پورس کے ہاتھیوں کا دستہ جب مدد کو پہنچا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایرانی سردار دارا قتل کو کر کے سکندر کی اطاعت قبول کر چکے تھے۔ سکندربھی حیران ہوا کہ بھلا ہندوستان میں بھی کوئی ایسا مہاراجہ ہے جو اتنی دور اس کے خلاف دارا کو فوجی رسد بھیج سکتا ہے۔ شاید پورس دارا کی نہیں اپنے مستقبل کی جنگ لڑنا چاہتا تھا۔ جب پورس کو دارا کے انجام کا پتہ چلا تو اس نے قسم کھائی کہ اگر کبھی اس کا سکندر سے مقابلہ ہوا تو وہ اس کے خلاف میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے گا۔
پھروہ وقت آیا جب سکندر کی فوجیں جہلم کے کنارے پر پورس کی سلطنت کو تباہ کرنے کیلئے خیمہ زن تھیں۔ سکندر نے اس کے پاس اپنا سفیر کلیو کیرس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ پورس میری اطاعت قبول کر کے مجھ سے آ کر ملاقات کرو۔ پورس مسکرایا اور جواب دیا کہ ہاں ملاقات تو ہوگی لیکن میدان جنگ میں۔پورس اور سکندر کے درمیان دھاڑتا دریائے جہلم حائل تھا۔ آخر سکندر نے دریا عبور کیا اور پھر ایک ایسی جنگ لڑی گئی جس کی کہانی ہم آج 2500 سال بھی پڑھ رہے ہیں۔ پورس نے اپن فوج کو پیش قدمی کا حکم دیا۔ اس کے ہاتھیوں نے سکندر کی فوج میں دہشت پھیلا دی۔ سکندر کے سپاہیوں نے آگ لگا کر ہاتھیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ کلہاڑیوں سے پیر کاٹے گئے اور سونڈوں پر تلواروں کے وار کئے تو زخم خوردہ ہاتھی واپس پلٹے اور اپنے ہی سپاہیوں کو کچل کر رکھ دیا۔ مگر پورس نے چالیس ہاتھیوں کا دستہ اپنی کمان میں لیا اور نئے جذبے کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ پورس کا قد لمبا اور ڈیل ڈول غیر معمولی تھا۔ مقدونی سپاہی حیرت سے اپنے حریف بادشاہ کو اس بہادری سے لڑتے ہوئے دیکھتے رہے۔ مشہور مورخ پلوترک نے پورس کے ایک ذاتی ہاتھی کی کچھ ایسی تصویر کشی کی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ کیا واقعی ایک جانور اپنے بہادر بادشاہ کے ساتھ اس طرح شانہ بشانہ بھی لڑ سکتا ہے۔ اس ہاتھی کو پورس سے انتہائی انس تھا، زخموں سے چور ہاتھی جب کھڑا رہنے کے قابل نہ رہا تو اس نے بڑے سکون سے پورس کو نیچے اتارا اور پورس لڑائی میں مصروف ہو گیا۔ وہ دلیری سے لڑتا رہا۔ اس کے جسم پر کئی زخم لگے دوسری طرف سکندر کا گھوڑا بھی زخمی ہو گیا تھا اور وہ بھی پیدل جنگ لڑ رہا تھا۔ جنگ نے اتنی طوالت اختیار کر لی تھی کہ سکندر کی فوج بڑی تعداد میں تباہ و برباد ہو گئی۔ دونوں اطراف کا نقصان اتنا ہو رہا تھا کہ یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ کون جیتا اور کون ہارا۔
مورخ کیوریٹس، پورس اور سکندر کی جنگ کے اختتام کو کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ سکندر نے اپنا ایک ایلچی پورس کے پاس بھیجا کہ وہ لڑائی کو بند کر کے سکندر کی اطاعت قبول کر لے۔ ایک لہولہان اور نڈھال پورس نے اس ایلچی سے کہا کہ تم تو وہی ہو جس کے بھائی نے سکندر کو اپنی سلطنت اور تاج بیچ دیا تھا۔ اس کا اشارہ ہندوستان کے ایک اور مہاراجہ کی طرف تھا جس نے بغیر لڑے سکندر کی اطاعت قبول کر لی تھی۔ سکندر کو معلوم ہوگیا تھا کہ پورس کو رام کرنا آسان نہیں تھا۔ اس نے ایک اور چال چلی۔ اس نے مزاحمت ترک کرنے والے پورس کے فوجیوں کیلئے معافی و مراعات کا اعلان کر دیا۔ اس دوران مقدونی سپاہیوں نے پورس اور اس کی بچی کھچی فوج کو چاروں سمت سے گھیر لیا۔ جب پورس کو یہ معلوم ہوا کہ وہ زیادہ دیر مزاحمت نہیں کر سکے گا تو اس نے اپنے شاہی ہاتھی سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔ مہاوت نے دیکھا کہ بادشاہ ہاتھی سے نیچے اتر رہا ہے تو اس نے معمول کے مطابق ہاتھی کو زمین پر گھٹنوں کے بل بٹھا دیا۔ یہ دیکھ کر باقی ہاتھی بھی نیچے بیٹھ گئے کیونکہ انہیں تربیت دی گئی تھی کہ جیسے ہی شاہی ہاتھی زمین پر بیٹھے باقی ہاتھی احتراماً ایسا ہی کریں گے۔ ان جانوروں کو بادشاہ کے ہاتھی کے احترام کیلئے دی گئی تربیت اس جنگ کا پانسہ پلٹ گئی۔ایک یونانی سپاہی پورس کی طرف بڑھا تاکہ اسے قتل کر سکے۔ پورس کے اس وفادار ہاتھی نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے نہایت وفاداری کا ثبوت دیا۔ اس نے نڈھال پورس کو سونڈ پر اٹھا کر دوبارہ اپنی پشت پر سوار کر لیا۔ یہ دیکھ کر ان یونانیوں نے اس ہاتھی پر نیزوں اور تیروں کی بارش کر دی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ سکندر پورس کے قریب گیا اور تمام دشمنی بھول کر اس نے پورس سے کہا کہ تمہیں کس پاگل پن نے میرے مقابلے میں اترنے پر مجبور کیا تھا۔ پورس مسکرایا اور بولا میرا خیال تھا کہ دنیا میں مجھ سے زیادہ بہادر کوئی نہیں۔ سکندر نے پوچھا کہ تم مجھ سے کس سلوک کی امید رکھتے ہو اور پھر پورس نے وہ تاریخی فقرہ کہا کہ ”جو ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ سے کرنا چاہیے۔“
سکندر پوٹھوہار کے اس دلیر سپوت سے بڑا متاثر ہوا جو اس کے سامنے زخموں سے نڈھال پڑا تھا لیکن اس کے دل میں سکندر اور اس کی فوجوں کا کوئی خوف اور دہشت نہیں تھی۔ سکندر نے زخمی بادشاہ کے زخموں کا علاج اپنے یونانی حکیموں سے کرانا شروع کیا۔ سکندر نے مہاراجہ پورس سے ایسا سلوک کیا جیسے اس کا کوئی وفادار اس کیلئے لڑتے ہوئے زخمی ہوا ہو۔یونان لوٹنے سے پہلے سکندر پورس کو اس کی سلطنت لوٹا گیا۔ شاید ایرانی بادشاہ دارا کی طرح میدان جنگ سے فرار ہونے کے بجائے پوٹھوہار کی اس دھرتی کے سپوت نے جس طرح یونانی فوجیوں سے جنگ لڑی تھی ، اس نے سکندر جیسے جنگجو کو بھی متاثر کیا تھا۔
پورس اور سکندر کے درمیان اس خطے میں دریائے جہلم کے کنارے لڑی گئی اڑھائی ہزار سال پرانی تاریخی جنگ کی کہانی مورخ بدھا پرکاش نے ”سکندر اعظم کے حملے اور پورس کی مزاحمت کی تاریخی داستان“ کے نام سے لکھی ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے اس کا ترجمہ چھاپ کر ہمارے جیسے تاریخ سے نابلد لوگوں پر احسان کیا ہے۔ یہ نایاب کتاب میں نے وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان سے بڑی مشکلوں سے پڑھنے کیلئے مانگی تھی۔ تاریخی حوالوں سے بھری اس کہانی نے مجھے خود بھی بہت شرمندہ کیا ہے۔ ہم کیسے آج تک راجہ پورس کے ہاتھیوں کو مذاقاً محاورے کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں جو بقول ہمارے یونانیوں کے بجائے اپنی ہی فوجوں پر چڑھ دوڑے تھے۔ کیا پورس کے ہاتھی کی اپنے بادشاہ کیلئے وفاداری اور اپنی جان کی دی گئی قربانی کے بعد بھی ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم پورس کے ہاتھیوں کا مذاق اڑائیں۔ پورس کے اس وفادار ہاتھی کی اداس کر دینے والی کہانی سے ثابت ہوتا ہے کہ آج سے ڈھائی ہزار سال قبل اس خطے کے باسیوں کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں کو بھی اپنی دھرتی ماں سے محبت تھی جس کو یونانیوں کی یلغار سے بچانے کیلئے انہوں نے میدان جنگ سے دارا بادشاہ کی طرح بھاگنے کے بجائے اپنی جانیں قربان کرنے کو ترجیح دی تھی !!


تازہ ترین