• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)
زیر نظر تحریر میں گزشتہ کالم میں زیر بحث دو نکات کی بساط بھر مزید تفہیم کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی خوشحال بابا و سیکولرازم اور حضرت اقبال کی جدت پسند افغان حکمران غازی امان اللہ خان سے وابستہ امیدیں...... واضح یہ کرنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ حضرت اقبال کو قرونِ وسطیٰ کے گرداب و سیراب کے تناظر میں اُمہ یا نظریہ پاکستان کے فلسفے کی توضیحی و توصیفی نقطہ نگاہ کی خاطر قدامت پرستی کا چغہ پہنا دیتے ہیں وہ جہاں قرآن عظیم کی تسخیر کائنات کی تعلیمات سے ’روگردانی‘ کے مرتکب ہوکر ’اُمہ‘ و وطن کو اندھیروں کا مسکن بنائے رکھنے پر جیسے بہ ضد ہوتے ہیں۔ ایسے بزغم خود مولویوں، فلسفیوں و مورخین کی دو عملی مگر اس وقت بیچ چوراہے پر عریاں رقصاں ہوجاتی ہے، جب وہ خود تو مغرب کی جدیدیت کے کرشموں سے فائدہ اٹھانے کے لئے دیوانے مستانے ہوجاتےہیں، مگر بیچاری اُمہ کے لئے وہ اس سائنس و ٹیکنالوجی کو ایسا زہر قرار دیتے ہیں جس کا تریاق خداوند قدوس نے بنایا ہی نہیں ہو! یہ انہی اکابرکے مقلد ہیں جنہوں نے کبھی کہا تھا کہ ٹیلی فون سننا حرام ہے، کیونکہ اس میں شیطان بولتا ہے۔ حالانکہ اب وہی شیطان کی بولی کون ہے جو شوق سے نہیں سنتا۔ یہ تو حال ہی کا واقعہ ہے کہ موبائل کی گھنٹی کو Church bell’گرجا کا گھنٹہ‘ سے تعبیر کیا گیا ،لیکن اب ایسے موبائل واسکٹوں میں رکھے جاتے ہیں جن میں حرام تصویریں بھی ناچتی ہیں۔ خیر یہ تو نکتہ معترضہ ہے۔ عرض یہ ہے کہ حضرت اقبال جب وقت کے مستحکم افغانستان میں ایک جدت پسند حکمران کے لئے نیک خواہشات رکھتے تھے تو پھر وہ اپنی خوابوں کی تعبیر کو کس طرح اندھیروں کے سوداگروں کے حوالے کرنے کی سوچ رکھتے ہوں گے؟
آپ جانتے ہیں کہ امان اللہ خان کا دور 1919سے 1929تک رہا۔ اس سے قبل آپ کے والد امیر حبیب اللہ قبل ازیں داد امیر عبدالرحمان حکمران تھے۔ جیسا کہ حضرت اقبال پیام مشرق میں آپ سے مخاطب کہتے ہیں ۔
اے امیر، ابنِ امیر، ابنِ امیر
ہدئیہ راز بینوائے ہم پذیر!
امان اللہ خان کی وجہ شہرت ان کی اینگلوافغان جنگ میں فتح یابی تھی۔ وہ اس معرکے کے بعد پورے ایشیا میں انقلابی تحریکوں کے راہبر قرار پائے۔ تحریک آزادی کے رہنما حضرت عبید اللہ سندھی کہتے ہیں ’’اعلیٰ حضرت امان اللہ خان کے دور حکومت میں ہم نے ’اپنائیت ‘ کا شاندار مظاہرہ دیکھا، وہ ہمیں سرکاری اجلاسوں تک میں ساتھ رکھتے تھے۔‘‘ امان اللہ خان کو دوران جنگ جدید تعلیم کی ضرورت نے تاہم شدت سے ستایا۔ جب کابل پر برطانوی طیارے نے بم گرایا تو انہیں احساس ہوا کہ تلواروں پرانی بندوقوں اور افغانوں کے زورِ بازو کی جگہ اب قلم نے لے لی ہےا ور اس کی روشنائی سائنس و ٹیکنالوجی ہے۔ یوں ان کے قلب و نظر میں پہلے سے موجزن تغیرات کی دنیا اسے عمل پر آمادہ کرنے کا باعث بنی۔ حضرت اقبال پیامِ مشرق کا انتساب ان کے نام کرتے ہوئے ’’بحضور اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان‘‘ 81اشعار ِجلیلہ ان کی توصیف اور ان سے امید کے نام کرتے ہیں۔ حضرت علامہ اعلان کرتے ہیں ’’اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافی حدود سے بالا تر کرکے ان میں ایک صحیح اور ’قو ی انسانی سیرت‘ کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔ اسی بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرمانروائے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتےہیں۔ اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طورپر مدنظر ہے۔ اس عظیم الشان کام میں خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔ (بحوالہ پیام مشرق)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت اقبال’ قوی انسانی سیرت‘ کی تجدید کی بنیاد پر افغان حکمران کی حمایت کے لئے کمر بستہ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسانی سیرت قوی ہوگی تو ہی مذہب مکتب، قوم یا زبان کے حوالے سے اخلاص و ایثار پیدا ہوگا۔ بصورت دیگر ریا و کاروبار ہی چھا جائے گا۔ جیسا کہ انگریز کی دولت و لالچ پر ازاں بعد پھر وہ عناصر امان اللہ خان کے خلاف برسرپیکار ہوگئے جو نام تو مقدس مذہب کا لیتے تھے، لیکن وہ انسانی سیرت کے حوالے سے چونکہ کھوکھلے تھے اس لئے ارزاں قیمت پر فرنگی کو دستیاب ہوگئے۔
یہ اہلِ علم کا موضوع ہے۔ جس پر رائے کا منصب ہم نہیں رکھتے،البتہ اتنا تو ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ انسانی اقدار ہی ہیں جو دیگر تمام اقدار کی عظمت کا سبب ہیں۔ بنابریں انسانی اقدار کا درس دیگر اقدار کی نفی نہیں ، ان اقدار کی قوتِ نافذہ کے لئے وسیلہ ہے۔ یوں جب جب کوئی، ہر انسان کی بات کرتا ہے ، اور اصرار یہ کرتا ہے کہ یہی سیکولرازم ہے تو نہ جانے کیوں، بزغمِ خود علم و تقویٰ کے داعی اسے لادینیت سے تعبیر کرنے پر بضد ہوجاتے ہیں۔ یہ امر قابل فہم ہے کہ چونکہ قول و فعل کے تضاد کے حامل ایسے عناصر عمل کی دنیا میں بونے ہوتے ہیں، اسی خاطروہ تلاش و انتظار میں رہتےہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے کہ جس کی مخالفت کی آڑ میں ان کی وطن پرستی و مذہب پسندی کا ملاوٹ شدہ مگر آزمودہ کامیاب کاروبار جاری رہے۔ خیر جہاں حضرت اقبال ’صحیح اور قوی انسانی سیرت‘ کی بات کرتے ہیں وہاں خوشحال خان خٹک زہد و تقویٰ کے متکبرین کو چیلنج کرتے ہوئے انسانیت کی بات کرتے ہیں، وہ خوشحال خٹک جن کی بے باکی کو حضرت اقبال یوں داد دیتے ہیں۔
راز ے قومے دید و بےباکانہ گفت
حرفِ حق با شوخئی رندانہ گفت
سیکولرازم کیا ہے۔بے شک تنگ نظر اسے لادینیت کہیں، لیکن یہ وسعتِ نظر کا انسانی استعارہ ہے۔کالم کے حدود چونکہ لامتناہی نہیں ہوتے،اس لئےبابا کی سیکولرازم کے حوالے سے کلام میں سےیہاں اُ ن کی صرف ایک غزل ،جوشاید دریا کو کوزے میں بند کرنے کیلئے کافی ٹھہرے، سےاستفادہ کرتے ہیں۔یہ غزل گزشتہ نصف صدی سے کلاسیکل گلوکار اُستاد ناشناس کے تو سط سے کروڑوں لوگوں تک پہنچی ہے۔ آج بھی وہ نغمہ سرا ہیں۔اُن کے ساتھ نوجوان گلوکار خالق عزیز کی ابلاغ افروز آواز بھی ہوا کے دوش پر ہے۔خوشحال بابا ا س غزل میں ایک شرابی کے علامتی کردار میں شیخ صاحب سے ہم کلام ہیں اور اُن کی جمود پرور فکر کا پوسٹ مارٹم کررہے ہیں۔
(رازے خو شرابی یم !شیخہ سہ راسرہ جنگ کڑے
برخے ازلی دی کشکے ما دَ زان پہ رنگ کڑے)
اے شیخ جی! یہ جو میںبادہ نوش ہوں، تو یہ تو نصیبوں کی بات ہے۔آپ مجھ سے یونہی اُلجھ جاتے ہیں، کاش! آپ مجھے اپنے جیسا بنالیں...مگر ہاں سچ یہ ہے!وہ لوگ جنت میں گئےجوسادہ و بےریا تھے،جہنم اُن سے بھر گئی جنہیںدعویٰ اپنے علم کا تھا...پھر یہ جو آپ بیٹھے رہتے ہیں حجرے میں،ذرا خلوت کا فائدہ تو بتایئے گا؟ کیوں اس وسیع جہاں کو خود پر تنگ و تاریک بنا رکھا ہے! ( یہ تسخیر کائنات کیلئے قرآن عظیم کی تلقین کی جانب اشارہ ہے) آخری شعر میں باباانسانوں سے محبت کا آفاقی پیغام عام کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ہمیں تو اے شیخ جی! تما م انسانوں کادرد ہے،اوریہی تعلیمات تمام مذاہب کی ہیں۔ یہ نفر ت کی باتیں توتمہاری اخترا ہیں، جن کیلئے تم رنگا رنگ بہروپ اپناتے ہو....

تازہ ترین