امریکہ کا دوسرا دورہ صحافی کے طورپر مجھے ایک سرکاری دعوت پر کرنا پڑا جس کے لئے بہت سےلوگوں کا، جن میں مولانا کوثر نیازی بھی شامل تھے، جائز اور ناجائز طور پر شکریہ ادا کرنا پڑا۔اس دورے میں مجھے امریکہ کی فلمی تجارت کے اداروں کو دیکھنے کاموقع ملا۔ میرے ساتھ اسلامی ملکوں کے گیارہ اورلوگ بھی شامل تھے۔ ہم 12لوگوں کو ہالی ووڈ جانے کابھی اتفاق ہواجہاں میں نے پہلی بار تھری ڈائمنشن عینک (3D Glasses) استعمال کی۔ یوں لگا جیسے مائیکل جیکسن میرے بہت ہی قریب ہوں۔اس دورے میں مجھے نیویارک، واشنگٹن اور دوسرے شہروں کی طرح نارتھ آئرلینڈ میں جانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ وہاں سے واپسی پرہمیں ایک فلم دیکھنے کااتفاق بھی ہوا جو کہ تھری ڈائمنشن کی عینک لگا کر دیکھی گئی۔ میرے ساتھ سوڈان کی ایک امریکی صحافی خاتون بھی تھی۔ جب فلم کے منظرمیں جہاز ایک گرجے کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیا تو اس خاتون نے ’’منوبھائی‘‘ کہتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے کہا، میں نے تو بہت عرصے سے اس لمحے کاانتظار کیا ہے۔ یہ فلم ہم نے امریکہ کے کینیڈی سنٹر میںدیکھی اور بہت لطف آیا۔ امریکہ کے تیسرے دورے کا اعزاز مجھے SAFMA تنظیم کے تحت نصیب ہوا۔ اس دورے میں، میں نے امریکہ کی بہت سی تعلیم گاہوں کا بھی دورہ کیا۔ امریکہ کا تیسرا دورہ مجھے خود اپنے خرچے پر جاوید شاہین کے ساتھ کرنے کاموقع ملا۔ جس سے پہلے ہم نے روس کے ہوائی اڈے ماسکو کی سیر کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ جہاز میں، میں نے جاوید شاہین سے کہا ’’نیچے سمندر ہی سمندر ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’سمندرکہاں ہے؟ یہاں تو پانی ہی پانی ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اورسمندر کے اوپر سے گزرتے ہوئے میں نے جاوید شاہین سے پوچھا ’’یہ کون سا سمندرہے؟‘‘ تو انہوں نے کہا ’’سمندرکہاں ہے؟ یہاں توپانی ہی پانی ہے۔‘‘ تھوڑی دیر بعدہماراجہاز ایک بہت بڑے جنگل کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ میں نے جاوید شاہین سے کہا ’’جنگل دیکھ رہے ہو کتنا بڑاہے؟ ‘‘جاوید شاہین نے کہا ’’جنگل کہاں ہے؟ یہاں تو درخت ہی درخت دکھائی دیتے ہیں۔‘‘اس دورے میں مجھے بطور صحافی بہت سے اداروں کو دیکھنے کاموقع ملا اور حیرت ہوئی کہ امریکہ ہمارے پاکستان کے مقابلے میں کس قدر ترقی یافتہ ملک ہے۔ ہمارے دورے میں جبکہ جاوید شاہین بھی میرے ساتھ تھے، نصرت انور کے گھر دو مہینے تک ٹھہرنے کا موقع ملا اور دیگر پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ جن میں پاکستان ٹیلی ویژن کے فنکار بدیع الزمان اور ادیب انور مغل بھی موجود تھے، جو ایئرپورٹ سے گھر تک میرا سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ میرا یہ دورہ بہت ہی معلومات افزا ثابت ہوا اور نصرت انور، جو کہ لاہور کو بہت یاد کرتی ہیں، نے نیویارک ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے ایک ہچکی لی۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ نصرت کو لاہور یاد آرہا ہے۔جہاز میں ہمارے ساتھ پاکستان کے معروف وکیل اور قانون دان ایس ایم ظفر کی بیٹی بھی سفر کر رہی تھیں جو امریکہ میں ایک ایوارڈ وصول کرنے کے لئے آئی تھیں۔ ہمارا یہ سفر بھی بہت اچھارہا۔اس کے بعد مجھے امریکہ کے دس اور دورے کرنے پڑے۔ اتنے ہی دورے میں نے SAFMA کے چیئرمین کےطور پر کئے بلکہ تمام سارک ملکوںمیں جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ جن میں سابق مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش اور بھوٹان بھی شامل ہیں۔ بھوٹان میں معلوم ہوا کہ وہاں کی عورتیں ایک سے زیادہ خاوند کی خواہشیں اور ضرورتیں پوری کرتی ہیں۔ایسی ہی ایک خاتون مجھے پیٹ کی بیماری کے علاج کے لئے ہسپتال بھی لے گئی اور بتایا کہ ہمارے لئے یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ امریکہ کے دورے میں مجھے اور جاوید شاہین کو نصرت انور کے خاوند اوربیٹیوں کے ساتھ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جانے کا بھی اتفاق ہوا اور عجیب بات ہے کہ پاکستان واپس آنے کے اگلے ہی دن میں نے ٹیلی ویژن پر اس ورلڈ ٹریڈ سنٹر کوجہازوں کے حملے کی تصویر میں دیکھا۔ میں نے جاوید شاہین سے کہا ’’شکر ہے کہ ہم اس وقت اس ٹریڈ سنٹر کے نیچے نہیں تھے۔‘‘