• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے میں نے تقریباً 15سلسلہ وار ڈرامے لکھے ہیں۔ میرا پہلا ڈرامہ 1965کی جنگ کی بیک گرائونڈ میں تھا۔ یہ یوں لکھا گیا کہ ایک روز شہزاد احمدموٹرسائیکل پر میر ےگھر آریاں محلہ راولپنڈی میں آئے اورکہا اسلم اظہر آپ کو یاد کررہے ہیں۔ میں نے کہا کس سلسلے میں۔ بتایا گیا انہیں کسی نے بتایا ہے کہ منو بھائی 65ء کی جنگ کے دیکھنے والےہیں۔ وہ آپ کی مطلوبہ ضرورت پوری کرنے میں کامیاب ہوںگے۔ میں شہزاد احمد کے ساتھ راولپنڈی کے ٹیلی ویژن اسٹیشن پر گیا اور اسلم اظہر سے ملاقات ہوئی۔ انہوںنے کہا مجھے ایک ڈرامے کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا میں نے تو کبھی ٹیلی ویژن کا ڈرامہ نہیں لکھا اور نہ ہی مجھے اس کاکوئی ڈھنگ آتا ہے۔ انہو ںنے کہا بہت سے کام نئے بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کاغذوںکا ایک پیڈ میرے سامنے رکھااور بتایا کہ میں مری جارہا ہوں اور تین گھنٹوں میں واپس آئوں گا۔ مجھے ڈرامہ تیار ملنا چاہئے۔ اسلم اظہر یہ کہہ کر چلے گئے اور پروگرام ایگزیکٹو آغا ناصر سے کہا کہ منو بھائی جب کہیں انہیں چائے سپلائی کی جائے۔ میں بہت حیران ہوا اور اسلم اظہر کے یقین پر حیرت بھی ہوئی کہ میں ٹیلی ویژن ڈرامہ بھی لکھ سکتا ہوں۔ ان کی یہ حرکت مجھے ڈرامہ لکھنے پرمجبور کرگئی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک پلاٹ آیا او رمیں نے ڈرامہ لکھناشروع کر دیا اورلکھتارہا جب تک کہ اسلم اظہر مری سے واپس نہ آئے۔ان کے آنے پر میں نے کہا ڈرامہ تیار ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا مجھے پڑھ کے سنائیں۔ میں نے ڈرامہ انہیں سنایا تو انہوں نے آغا ناصر سے کہا کہ مجھے راولپنڈی میں بہترین اداکاروں اور اداکارائوں کی ضرورت ہے جن سے میں یہ ڈرامہ کمپلیٹ کرسکوں۔ آغا ناصر نے کہا کہ منو بھائی نے اگر اپنا پہلا خوبصورت ٹیلی ویژن ڈرامہ لکھا ہے تو اسے برباد نہ کریں کیونکہ آپ کے ڈراموں میں اکثر اداکار اسلم اظہر بننے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں میں یہ ڈرامہ خود پروڈیوس کروںگا۔ ڈرامے کا عنوان ’’پل شیرخان‘‘ تھا جو ایک فوجی کی کہانی تھی۔ ہندوستانی فوجیں لاہور کی طرف آنے والے راستے پر ایک پل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں اورپل مل گیا۔ اس کا نام ’’پل شیرخان‘‘ رکھا گیا۔ اس نام کی وجہ یہ تھی کہ شیرخان جو کہ فوجی حوالدار تھا،نےاس پل کو اڑا کر اور بھارتی فوج کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کےلئے پل کو تباہ کردیا جس کے ساتھ وہ خود بھی شہید ہوگیا۔یہ ڈرامہ میرا پہلا ڈرامہ تھاجو میں نے پی ٹی وی کے لئے لکھا اور اس ڈرامے کے معاوضے میں مجھے لکھنے والوں کے ’’آئوٹ سٹینڈنگ ریٹ‘‘ سے نوازا گیا جو کہ بہت کم لکھنے والوں کو مل سکتا تھا۔ اس ڈرامے نے غیرمعمولی اور میری توقع سے بڑھ کر مقبولیت حاصل کی۔ اس کے ہیرو ریڈیو کے اداکار تھے جب کہ ہیروئین کا کردار فیض صاحب کی بیٹی منیزہ ہاشمی نے ادا کیا اور بہت خوبصورتی سے ادا کیا اور ان کی یہ اداکاری ڈرامے کی مقبولیت کا سبب بنی اورسیکنڈ ہیروئین کا کردار کوکب الصبح روحی نے انجام دیا تھا۔ یہ ڈرامہ اسلم اظہر نے پروڈیوس کیا اور یہ بہت کامیاب رہا اور اس کے بعد مجھےمزید ٹیلی ویژن ڈرامے لکھنے کا لالچ ہو گیاکیونکہ پہلی دفعہ مجھے ڈرامے کا یا کسی بھی تحریر کامعاوضہ ملا تھا۔لالچ بری چیز ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ کسی کی بدنامی کا باعث بن جائے۔ میرا دوسرا ڈرامہ ’’سرخ ندی کے موڑ پر‘‘ بھی اسلم اظہر نے پروڈیوس کیااور میں نے دیکھا کہ واقعی ہر اداکار اسلم اظہر کی نقالی کرنے میں مصروف ہے۔ مگر اس کے باوجود ڈرامہ مقبول ہوااور یوں میں نے ٹیلی ویژن کے ڈرامے اور سلسلہ وار کھیل لکھنے کاآغاز کیا۔

تازہ ترین